aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اگر یہ کہا جائے کہ اقبال کی شاعری کا ماحصل خودی اور بے خودی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اقبال کے یہاں خود شناسی کے موضوعات پر اشعار کی بھرمار ہے جو ان کی شاعری کے تمام کلام پر بکھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اگر موٹے طور پر یہ کہا جائے کہ اقبال کی خودی ان کے روحانی پیر رومی کے یہاں سے پروان چڑھی ہے تو بالکل صحیح ہے کیوں کہ مثنوی معنوی میں بھی رومی نے جابجا خود شناسی پر زور دیا ہے اور اس کے بعد سب سے زیادہ خودی کے مسائل ہمیں بیدل دہلوی کے یہاں نظر آتے ہیں۔ اقبال بیدل سے بھی بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ تو کہہ دیا ہے کہ اگر بیدل کے دام میں جو شخص گرفتار ہو گیا اس کی تمام عمر رہائی ممکن نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رومی اور بیدل کے یہاں جو چیز سرسری بیان ہوئی ہے اقبال نے اس کو بہت ہی تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ ایک فلسفہ وضع کیا اور اس کی ہر ممکن طریقے سے تشریح کی ہے۔ چونکہ اقبال فلسفہ شرق و غرب دونوں سے بخوبی واقف تھے اس لئے انہوں نے اپنے فلسفے کو اس طرح سے پیش کیا کہ دونوں کے مزاج پر کھری اترتی ہے۔ اس کتاب میں اسی انا، خودی، خود شناسی کے فلسفے کی تشریح کی گئی ہے ۔ عام طور پر جب ہم اقبال کو پڑھتے ہیں تو جستہ جستہ ان کے اشعار پڑھ کر نکل جاتے ہیں جس سے ان کے فلسفے کی جو چھاپ ہے وہ مکمل ہم پر نہیں پڑ پاتی ۔اس لئے اس جیسی کتابیں لکھی گئی ہیں تاکہ ہم ان کے فلسفے کو سمجھ سکیں ۔ یہ کتاب ان کے پورے فلسفے کو جزئیات کے ساتھ بیان کرتی ہے اس لئے خودی کو سمجھنے کے شائقین اس طرف متوجہ ہو سکتے ہیں۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free