aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ابن انشااپنے پر لطف سفرناموں اور شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے دو مجموعہ کلام "چاند نگر " اور "اس بستی کے اک کوچے میں " شعری مہارت کا ثبوت پیش کرچکے ہیں۔ پیش نظر ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔جس میں نظمیں اورغزلیں شامل ہیں۔بہت سی نظمیں ،غزلیں ،نامکمل ہیں ممکن ہے خام صورت میں شائع کردی گئی ہوں۔کہیں صرف ایک دو شعر ہی کہے گئے ہیں۔۔انشا جی نے یہ اشعار مختلف ادوار میں کہے تھے۔ان اشعار میں تازگی او ررومانیت ہے۔ابن انشا ترقی پسند شاعر تھے۔مگر ان کی ترقی پسندی ،ترقی پسندتحریک سے مختلف تھی۔انھوں نے اپنی نظموں میں اپنی منفرد فضا تخلیق کی ہے۔اپنی طویل نظموں میں انھوں نے یہ تجربہ کیا کہ چھوٹی و بڑی اور مختلف البحر نظموں کا ایک مرکب بنایا اور اپنے تاثر سے نظموں میں ایک وحدت پیدا کی۔اس مجموعہ میں انشاء جی بہت دن بیت چکے ،دل اک کٹیا دشت کنار سے، فرض کرو، اس آنگن کا چاند، دروازہ کھلا رکھنا،بستی میں دیوانے آئے،سب مایا ہے وغیرہ موثرنظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔
نام شیر محمد اور تخلص انشا تھا۔۱۵؍جون ۱۹۲۷ء کو ضلع جالندھر میں ایک کاشت کار گھرانے میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۶ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔۱۹۴۷ء میں مہاجرین کے ساتھ پاکستان آگئے۔۱۹۵۳ء میں ایم اے(اردو) اردو کالج، کراچی سے کیا۔ابن انشا ایک بلند پایہ کالم نگار، مصنف ،مترجم، مزاح نگار اور شاعر تھے۔ ہندی ادب کا انھوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا۔۱۹۶۵ء میں روزنامہ’انجام‘ میں ’’باتیں انشا جی‘‘ کے عنوان سے لکھتے رہے۔مطالعاتی مواد کے امور میں ابن انشا پاکستان میں یونیسکو کے نمائندے تھے۔سفرناموں، ترجموں اور شاعری پر مبنی تصنیفات اور تالیفات کا ایک وسیع ذخیرہ ابن انشا نے ہمارے ادب میں چھوڑا ہے۔۱۱؍جنوری۱۹۷۸ء کو ابن انشالندن میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’چاند نگر‘،’اس بستی کے اک کوچے میں‘(شعری مجموعے)، ’بلو کا بستہ‘(بچوں کی نظمیں)، ’دنیا گول ہے‘، ’آوارہ گرد کی ڈائری‘، ’اردو کی آخری کتاب‘(مزاح)، ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘، ’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘(سفرنامے)، ’سحر ہونے تک‘(ترجمہ روسی ناول)، ’انشا جی کے خطوط‘، ’نگری نگری پھرا مسافر‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:205
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets