aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ظفر علی خان کی یہ کتاب دین سلام کے کامل اور مستحکم ہونے کےحوالے سے نہایت جامع اور مختصر رسالہ ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے سارے عالم میں دین اسلام کے حوالے سے جو تہذیب اور طرز زندگی میسر ہوئی اس کا تذکرہ کیا ہے، مصنف نے سائنسی ایجاد ات ، اسلام کی علمی سر گرمی کی داستان، مسلم اسکالرس کی تحقیقات، قلیل عرصے میں اسلام کا سارے عالم میں بول بالا، عرب سے بت پرستی کا خاتمہ، اور اسلام کا دوسرے مذاہب سے تقابل کرتے ہوئیں اسلام کی حقانیت کی جانب اشارہ کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ، اس دور میں مسلمانوں کے کارناموں کوجو فراموش کیا جا رہا ہے اس پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے، موجودہ دور میں مسلمانوں کی حالت زار پر رنج کا اظہار اور اس کے اسباب و عوامل بھی بیان کئے ہیں کہ مسلمان اتنے اچھے ماضی کے بعد حال میں اس طرح کے حالات سے کیوں نبرد آزما ہیں۔
ظفر علی خان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔ وہ شاعر بھی تھے ،مدیر بھی اور آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے ایک سرگرم سیاسی کارکن بھی ۔ ان کی پیدائش 1873 میں قصبہ کوٹ مرتا ضلع سیالکوٹ میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم کرم آباد میں ہی حاصل کی اور اس کے بعد اینگلو محمڈن کالج علی گڑھ میں زیر تعلیم رہے ۔
مولانا ظفر علی خاں اس وقت کے مشہور روزنامے ’’ زمیندار‘‘ کے مدیر رہے ، اس اخبار نے اپنے وقت میں سیاسی ، سماجی اور تہذیبی مسائل ومعاملات کی عکاسی اور سماج کے ایک بڑے طبقے میں ان مسائل کے حوالے سے رائے سازی میں اہم کردار ادا کیا ۔ مولانا کا سیاسی مسلک گاندھی جی کی عدم تشدد کی حکمت عملی سے بہت مختلف تھا ، وہ برطانوی حکمرانوں سے براہ راست ٹکراؤ میں یقین رکھتے تھے ۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں گورنر پنجاب سرمائیکل اوڈوائر کے دور میں انھیں پانچ سال کی قید بامشقت بھی برداشت کرنی پڑی ۔ خلافت تحریک سے بھی مولانا کی وابستگی بہت مظبوط تھی ۔
مولانا کی شاعری بھی ان کی اسی سیاسی اور سماجی جدوجہد کا ایک ذریعہ رہی ان کی نظموں کے موضوعات ان کے وقت کی اتھل پتھل کے ارد گرد گھومتے ہیں ۔ ان کی بیشتر نظمیں وقتی تقاضوں کے پیش نظر تخلیق کی گئی ہیں ۔
27 نومبر 1956 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets