aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو فکشن کی باغی خاتون
’’ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ عصمت کی شخصیت اردو ادب کے لئے باعث فخر ہے۔ انھوں نے بعض ایسی پرانی فصیلوں میں رخنے ڈال دئے ہیں کہ جب تک وہ کھڑی تھیں کئی رستے نظروں سے اوجھل تھے۔ اس کارنامے کے لئے اردو خوانوں کو ہی نہیں بلکہ اردو کے ادیبوں کو بھی ان کا ممنون ہونا
چاہئے۔‘‘ پطرس بخاری
عصمت چغتائی کو سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چند کے ساتھ جدید اردو فکشن کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔ بدنامی اور شہرت، تنازعات اور مقبولیت کے اعتبار سے وہ اردو کے کسی بھی افسانہ نگار سے آگے، منفرد اور ممتاز ہیں۔ ان کی شخصیت اور ان کی تحریر ایک دوسرے کا تکملہ ہے اور جو بغاوت، سرکشی، درد مندی بےساختگی، بے تکلفی، الھڑپن اور شگفتہ اکھڑپن سے عبارت ہے۔ انھوں نے اپنے چونکا دینے والے موضوعات، حقیقت پسندانہ طرز نگارش اور اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر اردو افسانہ اور ناول نگاری کی تاریخ میں اپنے لئے امتیازی جگہ بنائی۔ انسانی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات ان کے افسانوں کا موضوع ہیں لیکن وہ ان واقعات کو اس چابکدستی اور فنکاری سے پیش کرتی ہیں کہ روزمرّہ کی زندگی کی مکمل اور جیتی جاگی تصویر نگاہوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے کرداروں کے ذریعہ زندگی کی برائیوں کو باہر نکال پھینکنے اور اسے حسن، مسرت اور سکون کا پیکر بنانے کی کوشش کی۔
عصمت چغتائی اردو کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھیں تاہم انھوں نے، اپنے ہم عصر دوسرے کمیونسٹ ادیبوں کے برعکس، معاشرہ میں خارجی، معاشرتی استحصال کی بجائے اس میں جاری داخلی، معاشرتی اور جذباتی استحصال کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ انھوں نے جنس اور جنسی تعلقات کے مسئلہ کو پوری انسانیت کی نفسیات اور اس کی اقدار سازی کے پس منظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں مرد اور عورت کی برابری کا سوال اٹھایا جو محض گھریلو زندگی میں برابری نہ ہو کر جذبہ اور فکر کی برابری ہو۔ ان کے افسانوں میں متوسط طبقہ کے مسلم گھرانوں کی فضا ہے۔ ان افسانوں میں قاری دوپٹْوں کی سرسراہٹ اور چوڑیوں کی کھنک تک سن سکتا ہے لیکن عصمت اپنے قاری کو جو بات بتانا چاہتی ہیں وہ یہ ہے کہ آنچلوں کی سرسراہٹ اور چوڑیوں کی کھنک کے پیچھے جو عورت آباد ہے وہ بھی انسان ہے اور گوشت پوست کی بنی ہوئی ہے۔ وہ صرف چومنے چاٹںے کے لئے نہیں ہے۔ اس کے اپنے جسمانی اور جذباتی تقاضے ہیں جن کی تکمیل کا اسے حق ہونا چاہئے۔ عصمت اک باغی روح لے کر دنیا میں آئیں اور معاشرہ کے جملہ مسلّمہ اصولوں کو منہ چڑایا اور انھیں انگوٹھا دکھایا۔
عصمت چغائی 21 اگست 1915ء کو اتر پردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا قسیم بیگ چغتائی ایک اعلی سرکاری عہدہ دار تھے۔ عصمت اپنے نو بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں جب انھوں نے ہوش سنبھالا تو بڑی بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور ان کو بچپن میں صرف اپنے بھائیوں کا ساتھ ملا۔ جن کی برتری کو وہ لڑ جھگڑ کر چیلنج کرتی تھیں۔ گلی ڈنڈا اور فٹبال کھیلنا ہو یا گھوڑسواری اور درختوں پر چڑھنا، وہ ہر وہ کام کرتی تھیں جس کی لڑکیوں کو ممانعت تھی۔ انھوں نے چوتھی جماعت تک آگرہ میں اور پھر آٹھویں جماعت علیگڑھ کے اسکول سے پاس کی جس کے بعد ان کے والدین ان کی مزید تعلیم کے حق میں نہیں تھے اور انھیں ایک سلیقہ مند گرہست عورت بننے کی تربیت دینا چاہتے تھے لیکن عصمت کو اعلی تعلیم کی دھن تھی انھوں نے دھمکی دی کہ اگر ان کی تعلیم جاری نہ رکھی گئی تو وہ گھر سے بھاگ کر عیسائی بن جائیں گی اور مشن اسکول میں داخلہ لے لیں گی۔ آخر ان کی ضد کے سامنے والد کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور انھوں نے علی گڑھ جا کر سیدھے دسویں میں داخلہ لے لیا۔ اور وہیں سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ علی گڑھ میں ان کی ملاقات رشید جہاں سے ہوئی جنھوں نے 1932ء میں سجّاد ظہیر اور احمد علی کے ساتھ مل کر کہانیوں کا ایک مجموعہ "انگارے" کے نام سے شائع کیا تھا جس کو فحش اور باغیانہ ٹھہراتے ہوئے حکومت نے اس پر پابندی عاید کر دی تھی اور اس کی تمام کاپیاں ظبط کر لی گئی تھیں۔ رشید جہاں اعلی تعلیم یافہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر، آزاد خیال، پسماندہ اور مظلوم عورتوں کے حقوق کی علمبردار، کمیونسٹ نظریات رکھنے والی خاتون تھیں۔ انھوں نے عصمت کو کمیونزم کے بنیادی عقاید سے روشناس کرایا اور عصمت نے ان کو اپنا گرو مان کر ان کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ عصمت کہتی ہیں، " مجھے روتی بسورتی، حرام کے بچّے جنتی، ماتم کرتی نسوانیت سے نفرت تھی۔ وفا اور جملہ خوبیاں جو عورت کا زیور سمجھی جاتی ہیں، مجھے لعنت محسوس ہوتی ہیں۔ جذباتیت سے مجھے سخت کوفت ہوتی ہے۔ عشق مقوی دل و دماغ ہے نہ کہ جی کا روگ۔ یہ سب میں نے رشید آپا سے سیکھا۔" عصمت عورتوں کی حالت زار کے لئے ان کی ناخواندگی کو ذمہ دار سمجھتی تھیں۔ انھوں نے ایف اے کے بعد، لکھنؤ کے آئی ٹی کالج میں داخلہ لیا جہاں ان کے مضامین انگریزی، سیاسیات اور معاشیات تھے۔ آئی ٹی کالج میں آ کر ان کو پہلی بار آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع ملا اور وہ متوسط طبقہ کے مسلم معاشرہ کی تمام جکڑبندیوں سے آزاد ہو گئیں۔
عصمت چغتائی نے گیارہ بارہ برس کی ہی عمر میں کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں لیکن انھیں اپنے نام سے شائع نہیں کراتی تھیں۔ ان کی پہلی کہانی 1939 ء میں "فسادی" کے عنوان سے موقر ادبی رسالہ "ساقی" میں شائع ہوئی تو لوگوں نے خیال کیا کہ ان کے بھائی، معروف ادیب، عظیم بیگ چغتائی نے فرضی نام سے یہ کہانی لکھی ہے۔ اس کے بعد جب ان کی کہانیاں "کافر"، "خدمتگار"، "ڈھیٹ" اور"بچپن" اسی سال شائع ہوئیں تو ادبی حلقوں میں کھلبلی مچی اور عصمت نے ایک مقبول افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا لی۔ ان کی کہانیوں کے دو مجموعے کلیاں اور چوٹیں 1941 اور 1942 میں شائع ہوئے۔ لیکن انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا سب سے بڑا دھماکہ 1941ء میں لحاف لکھ کر کیا۔ دو عورتوں کے باہمی جنسی تعلقات کے موضوع پر لکھی گئی اس کہانی سے ادبی دنیا میں بھونچال آ گیا۔ ان پر فحش نگاری کا مقدمہ قایم کیا گیا اور اس پر اتنی بحث ہوئی کہ یہ افسانہ ساری زندگی کے لئے عصمت کی پہچان بن گیا۔ اور ان کی دوسری اچھی کہانیاں چوتھی کا جوڑا، گیندا، دو ہاتھ، جڑیں، ہندوستان چھوڑو، ننھی کی نانی، بھول بھلیاں، مساس اور بچھو پھوپھی، لحاف میں دب کر رہ گئیں۔
آئی ٹی کالج لکھنؤ اور علی گڑھ سے بی ٹی کرنے، مختلف مقامات پر معلمی کرنےاور کچھ بالاعلان، دھواں دھار معاشقوں کے بعد عصمت نے بمبئی کا رخ کیا جہاں ان کو انسپکٹریس آف اسکولز کی ملازمت مل گئی۔ بمبئی میں شاہد لطیف بھی تھے جو پونے دو سو روپے ماہوار پر بمبئی ٹاکیز میں مکالمے لکھتے تھے۔ شاہد لطیف سے ان کی ملاقات علی گڑھ میں ہوئی تھی جہان وہ ایم اے کر رہے تھے اور ان کے افسانے ادب لطیف وغیرہ رسالوں میں شائع ہو تے تھے۔ بمبئی پہنچ کر ان دونوں کا طوفانی رومانس شروع ہوا اور دونوں نے شادی کر لی۔ محبت کے معاملہ میں عصمت کا رویّہ بالکل غیر روائتی تھا۔ ان کا کہنا تھا، "میں محبت کو بڑی ضروری اور بہت اہم شئے سمجھی ہوں، محبت بڑی مقوی دل و دماغ شئے ہے لیکن اس میں لیچڑ نہیں بن جانا چاہئے۔ اٹواٹی کھٹواٹی نہیں لینا چاہئے، خودکشی نہیں کرنا چاہئے زہر نہیں کھانا چاہئے۔ اور محبت کا جنس سے جو تعلق ہے وہ فطری ہے۔ وہ زمانہ لد گیا جب محبت پاک ہوا کرتی تھی۔ اب تو محبت ناپاک ہونا ہی خوبصورت مانا جاتا ہے" اسی لئے جب شاہد لطیف نے شادی کی تجویز پیش کی تو عصمت نے کہا، ’’میں گڑبڑ قسم کی لڑکی ہوں، بعد میں پچھتاؤ گے۔ میں نے ساری عمر زنجیریں کاٹی ہیں اب کسی زنجیر میں جکڑی نہ رہ سکوں گی فرماں بردار پاکیزہ عورت ہونا مجھ پر سجتا ہی نہیں۔‘‘ لیکن شاہد نہ مانے۔ شاہد لطیف کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں وہ کہتی ہیں، "مرد عورت کو پوج کر دیوی بنانے کو تیار ہے، وہ اسے محبت دے سکتا ہے، عزت دے سکتا ہے صرف برابری کا درجہ نہیں دے سکتا شاہد نے مجھے برابری کا درجہ دیا" برابری کے اس درجہ کی اساس مکمل دوطرفہ آزادی تھی۔ اس میں جذباتی تعلق کا کتنا دخل تھااس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جب 1967ء میں شاہد لطیف کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو ا اور ڈاکٹر صفدر عصمت سے اظہار ہمدردی کرنے ان کے گھر پہنچے تو عصمت نے کہا، ’’یہ تو دنیا ہے ڈاکٹر صاحب! یہاں آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ جیسے اس ڈرائنگ روم کا فرنیچر، یہ صوفہ ٹوٹ جائے گا توہم اسے باہر نکال دیں گے پھر اس خالی جگہ کو کوئی دوسرا صوفہ پُر کر دے گا۔‘‘
شاہد لطیف نے عصمت کو فلمی دنیا سے روشناس کرایا تھا۔ وہ اسکرین رائٹر سے فلم پروڈیوسر بن گئے تھے۔ عصمت ان کی فلموں کے لئے کہانیاں اور مکالمے لکھتی تھیں ان کی فلموں میں ضدی (دیوانند پہلی بار ہیرو کے رول میں) آرزو(دلیپ کمار، کامنی کوشل)اور سونے کی چڑیا باکس آفس پر ہٹ ہوئیں۔ اس کے بعد ان کی فلمیں ناکام ہوتی رہیں۔ شاہد لطیف کی موت کے بعد بھی عصمت فلمی دنیا سے وابستہ رہیں۔ پارٹیشن کے موضوع پر بنائی گئی لاجواب فلم "گرم ہوا "عصمت کی ہی ایک کہانی پر مبنی تھی۔ شیام بنیگل کی دل کو چھو لینے والی فلم 'جنون" کےمکالمے عصمت نے لکھے تھے اور ایک چھوٹا سا رول بھی ادا کیا تھا۔ ان کے علاوہ عصمت جن فلموں سے وابستہ رہیں ان میں چھیڑ چھاڑ، شکایت، بزدل، شیشہ، فریب، دروازہ، سوسائٹی، اور لالہ رخ شامل ہیں۔
فکشن میں عصمت کی فنکاری کا بنیادی رمز اور اس کا سب سے اثر انگیز پہلو ان کا اسلوب بیان ہے۔ زبان عصمت کی کہانیوں میں محض ادائے خیال کا وسیلہ نہیں اپنے آپ میں ایک مجرد سچائی بھی ہے۔ عصمت نے زبان کو ایک کردار کی طرح جاندار، متحرک اور حرارت آمیز عنصر کے طور پر دیکھا اور اس طرح رائج الوقت اسالیب اور صیغۂ اظہار کے ہجوم میں عصمت نے اسلوب و اظہار کی اک نئی سطح تلاش کی اور ان کی یہ کوشش الگ سے پہچانی جاتی ہے۔ ان کی زبان تحریری ہوتے ہوئے بھی تحریری نہیں ہے۔ عصمت کی تحریریں پڑھتے وقت قاری بے تکلف بات چیت کے تجربے سے گزرتا ہے۔ ان کا ذخیرۂ الفاظ اپنے تمام ہم عصروں سے زیادہ وسیع متنوع اور رنگین ہے۔ ان کی تحریر میں زبان محاورے اور روزمرہ کے تمام محاسن کے ساتھ اک نوکیلا پن ہے اور قاری اس کے کچوکے محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بقول پطرس، عصمت کے ہاتھوں اردو انشاء کو نئی جوانی نصیب ہوئی ہے۔ وہ پرانے، مانوس اور پامال الفاظ میں مفہوم اور تاثیر کی نئی طاقتوں کا سراغ لگاتی ہیں ان کی قوت ایجاد ہزاروں نت نئی تشبیہات تراشتی ہےاور نئے سانچے تعمیر کرتی ہے۔ عصمت کی موت پر قرۃ العین حیدر نےکہا تھا، ’’آل چغائی کی اردوئے معلی کب کی ختم ہوئی، اردو زبان کی کاٹ اور ترک تازی عصمت خانم کے ساتھ چلی گئی۔‘‘
عصمت چغتائی اک زود نویس ادیبہ تھیں۔ انھوں نے اپنا نیم سوانحی ناول" ٹیڑھی لکیر" سات آٹھ دن میں اس حالت میں لکھا کہ وہ حاملہ اور بیمار تھیں۔ اس ناول میں انھوں نے اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک کے تجربات و مشاہدات کو بڑی خوبی سے سمویا ہے اور معاشرے کے جملہ مسلّمات پر ضربیں لگاتے ہوئے، مذہبی سماجی اور نظریاتی تصورات کی بے دریغ نکتہ چینی کی ہے۔ ان کے آٹھ ناولوں میں اس ناول کا وہی مقام ہےجو پریم چند کے ناولوں میں" گئودان" کا ہے۔ ان کے دوسرے ناول "ضدی"، "معصومہ"، "دل کی دنیا"، "اک قطرۂ خون"، "بہروپ"، "سودائی"، "جنگلی کبوتر"، "عجیب آدمی"، اور "باندی" ہیں۔ وہ خود "دل کی دنیا "کو اپنا بہترین ناول سمجھتی تھیں۔
عصمت کو ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے کئی اہم اعزازات اور انعامات ملے۔ 1975 میں حکومت ہند نے انھیں پدم شری کا خطاب دیا۔ 1990 میں مدھیہ پردیش حکومت نے انھیں اقبال سمّان سے نوازا، انھیں غالب ایوارڈ اور فلم فیئر ایوارڈ بھی دئے گئے۔ نصف صدی تک ادب کی دنیا میں روشنیاں بکھیرنے کے بعد24 اکتوبر 1991 کو وہ دارفانی سے کوچ کر گئیں اور ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسد خاکی کو چندن واڑی برقی شمشان گھاٹ میں سپرد آتش کر دیا گیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets