aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عزیز احمد کا تاریخی اور تہذیبی شعور ان کے افسانوی اور غیرافسانوی تحریروں میں جابجا نظر آتا ہے۔ان کی علمی اور ذہنی وسعت ہندوستان کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی بین الاقوامی صورت حال کو بھی پیش کرنے پر اکساتی ہے۔ "جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں" عزیز احمد کاتاریخی ناول ہے، جس میں امیر تیمور کی سوانح حیات کو ایک کامیاب حکمراں کی جگہ ایک عام انسان کی طرح پیش کیا گیا ہے۔جس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ایک عام انسان جو بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کر کے ضعیفی کو پہنچ جاتا ہے ۔اس وقت وہ فطرتا نرم دل ،سنجیدہ اور معلم الاخلاق بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہ ناول تہذیب وتمدن، معاشرت اور تاریخ کی حقیقی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔
16 دسمبر 1978ء کو اردو کے نامور افسانہ نگار، مترجم اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے عالمی پروفیسر عزیز احمد کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ پروفیسر عزیز احمد 11 نومبر 1913ء کو عثمان آباد ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) اور لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور وزارت اطلاعات سے منسلک رہے، 1958ء میں وہ لندن چلے گئے اور اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1960ء میں وہ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی علوم سے منسلک ہوئے اور آخر تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگار اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقص ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور ناول گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی، ہوس اور شبنم کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ اسلامی علوم اور ثقافت پر بھی کئی انگریزی کتابوں کے مصنف تھے اور انہوں نے انگریزی کی کئی شاہکار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets