aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو تنقید نگاری میں ایک اہم نام پروفیسراحتشام حسین کا ہے۔ احتشام حسین اپنی ساری زندگی ترقی پسند تحریک کے حامی رہے اور اس کی پیروی کرتے رہے اور ساتھ ہی زور بھی دیتے رہے کہ شعر وادب کا مقصد صرف زندگی کو سنوارنا اور بہتر بنانا ہے۔ ان کے خیال میں جو ہم پر گزرتی ہے ان میں شاعر، ادیب بھی شامل ہوتے ہیں اور ادیب جو کچھ لکھتا ہے وہ سماج میں پایا جاتا ہے یعنی سماج میں پائی جانے والی حقیقتوں کا عکس ادیب کے فن میں ملتا ہے۔ زیر نظر کتاب "جدید ادب: منظر او رپس منظر" پروفیسر سید احتشام حسین کے ان مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتا فوقتا مختلف ادبی رسالوں میں شائع ہوئے تھے۔ کتاب میں شامل تنقیدی مضامین کی تعداد اکیس ہے، ان اکیس مضامین میں ادبی رجحانات، اردو ادب کا دور قدیم، جدید میلانات اور عصری مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔
نام سید احتشام حسین رضوی، پروفیسر۔۲۱؍اپریل ۱۹۱۲ء کو اترڈیہہ ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم برائے شرفا اور رؤسا کے دستور کے مطابق مکتب میں ہوئی۔ انگریزی تعلیم کی ابتدا علی گڑھ سے ہوئی۔ ہر درجے میں انعام ملتا رہا۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد الہ آباد آگئے۔ ۱۹۳۶ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) اس امتیاز کے ساتھ پاس کیا کہ پوری یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ وہ ادیب، نقّاد، مترجم کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ الہ آباد یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر رہے۔ یکم دسمبر۱۹۷۲ء کو الہ آباد میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘، ’’اردو لسانیات کا خاکہ‘‘ ، ’’تنقیدی جائزے‘‘، ’’تنقیدی نظریات‘‘، ’’تنقید اور عملی تنقید‘‘، ’’راویت اور بغاوت‘‘، ’’روشنی کے دریچے‘‘، ’’ہندوستانی لسانیات کا خاکہ‘‘، ’’ادب اورسماج‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:35
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets