aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کلاسکل عربی اپنی قدامت کے باوجود اپنا جواب نہیں رکھتی ۔ ایک زمانے میں وہ زبان دنیا کی فصیح ترین زبانوں میں سر فہرست تھی جس کے نتیجے میں اہل عرب خود کو ہی زبان دان سمجھتے تھے اور دیگر لوگوں کو عجمی اور گونگا کہہ کر یاد کرتے تھے۔ اور اگر دیکھا جائے تو کہیں نہ کہیں ان کا یہ دعوی غلط نہ تھا کیوں کہ اس کی قدیم شاعری میں ادب عالیہ کی جو بھرمار ہے اور فصاحت و بلاغت کی جو جولانی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ مگر جب اسلام آیا اور اس نے ایک مذہبی اور جنتی زبان ہونے کا تمغہ پایا تو عربی زبان میں ایک طویل المدت سکوت طاری ہو گیا اور زبان کی چرب زبانی خشک سی ہو گئی۔ اس نے ادبی شہ پارے تخلیق کرنا تقریبا بند کر دئے۔ اورادبی نقطہ نظر سے وہ تقریبا اپاہج سی ہو گئی۔ مگر ایک وقت پھر آیا جب زبان نے سہل نگاری کی طرف توجہ کی اور خود کو شدت پسندی کے زعم سے الگ کیا تب اس نے پھر سے جست لگائی اور اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بہال کیا۔ اور نہ صرف اپنی بلکہ دیگر زبانوں کا بھی اثر قبول کرنے لگی ان کے الفاظ خود میں جذب کرنا شروع کر دیا ۔ پھر اس نے مقالہ نگاری سے لیکر نقد و انتقاد، قصہ نگاری، ڈرامہ، عامیہ اور فصیح عربی جیسی چیزوں پر خوب کام کیا۔ سید جمال الدین ، شیخ محمد عدہ،عبد الرحمن کواکبی، مصطفے لطفی منفلوطی، مصطفے صادق الرفعی اور جبران خلیل جیسے سیکڑوں ادیب اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عربک ادب کو پھر سے پر و پرواز عطا کردی۔ یہ کتا ب اسی جدید عربی کی ادبی ارتقائی کشش کو بیان کرتی ہے۔