aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔ علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کلام موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور اس علم کے، دیگر تمام علوم کی طرح، کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کلامِ موزوں کہنے کے لیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبد الرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں۔ زنظرکتاب ’’ جدید علم العروض‘‘ پٹنہ یونیورسٹی کے پروفیسر عبد المجید کی تصنیف ہے موصوف نے اس کتاب میں فن عروض کو ایک اصول کےماتحت مختصر اور سہل بنا کر پیش کیا ہے اور ساتھ ہی اس کا بھی لحاظ رکھا ہے کہ فن عروض کے اجزا ،بحور، وزحافات وغیرہ سب باقی رہیں ۔صاحب کتاب نہیں اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ اصلی بحریں صرف آٹھ ہیں ہی ہونی چاہیں نہ کہ انیس، مفرد بحریں درحقیقت سات ہی ہیں بقیہ بارہ بحریں انہی سات بحروں سے مرکب ہوتی ہیں۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free