aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عبدالقادر سروری کا شمار اردو کے جدید طرز نگار ش قلمکاروں اور اولین ناقدین میں سے ہوتا ہے ۔ جدید اس وجہ سے کہ بیسویں صدی کی ابتدا سے ان کا تعلق ہے جب حالی اور مولوی عبد الحق کی تحریر یں سامنے آرہی تھیں ۔ ان سے قبل محمد حسین آزاد ، سرسید اور ان کے اصحاب نئی طرز نگارش کی داغ بیل ڈال چکے تھے۔ انہوں نے اس کتاب کو جب لکھنا شروع کیا تو قدیم و روایتی شاعر ی داغ تک آکر ختم ہوچکی تھی ۔ شاعری کے موضوعات و لفظیات بدل چکے تھے. مثنوی کے مقابلے میں نظموں کا عر وج ہورہا تھا اور دیگر اصناف سخن قدامت کی جانب بڑھ رہے تھے ایسے میں عبدالقادر سروری نے یہ کتاب لکھی جس میں وہ آنے والی اردو شاعری کا مطالعہ پیش کر تے ہیں جن میں سے چند آج ایک صدی کے بعد اردو کے قابل قدر او ر صف اول کے شعر ا میں شمار ہوئے ۔ اس کتاب کے متعلق مصنف لکھتے ہیں، ’’اس کتاب میں ، میں نے ان تمام شعری مساعی کو شامل کر نے کی کوشش کی ہے جن سے جدید شعریت کی وسعت یا ارتقا ء کا کوئی نہ کوئی سررشتہ ملتا ہو۔‘‘ اسی لیے انہوں نے اس کتاب میں اپنے زمانے کے نامور شعرا اور مستقبل میں ابھر نے والے شعرا کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے لیکن پھر بھی چند ایسے شاعر گزرے جن تک مصنف کی نظر نہیں پہنچی جیسے ،فیض احمد فیض اور فراق گورکھپوری وغیرہ الغرض اس کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets