aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پیش نظر کتاب اسعد بدایونی کی شاعری اور اہم خصوصیات کا احاطہ کرتی ہے۔ جس میں اسعد بدایونی کو جدید شاعری کے حوالے سے متعارف کروایا گیا ہے۔ اسعد کی منتخبہ غزلوں کو شامل کرتے ہوئے ان کے اسلوب، موضوعات، جدید غزل کے بدلتے رجحانات پر اہم نکات پیش کیے گئے ہیں۔ اسعد نے راویت کی پاسداری کرتے ہوئے، جدیدیت کو اپنایا ہے۔ ان کی زبان سادہ اور شگفتہ ہے۔ اسعد کے کلام میں مستعمل صنعتوں، تشبیہات اور تمثیلات بھی جدید رجحانات اور میلانات سے متاثر ہیں۔ اسعد اپنے جدید لب و لہجہ، متنوع موضوعات اور متنوع فکری زایوں کی وجہ سے اپنے معاصرین میں جدید شاعری کی نمائندہ آواز بن کر ابھرے ہیں۔ محمد رضوان خاں نے اپنی تصنیف "جدیدیت کا مغنی۔ اسعد بدایونی" میں جدید تر شاعری کے امکانات کے حوالے سے اسعد کے کلام کا فنی او رفکری تجزیہ پیش کیا ہے۔ کتاب میں شامل اسعد کا مضمون بعنوان "جدید ارد وغزل اور ا س کی روایت" سے بھی نئی غزل سے متعلق اسعد کا نظریہ بھی واضح ہوتا ہے۔ یہ کتاب میں نثر و نظم کے حوالے سے اسعد بدایونی کو مکمل طور پر ادبی منظر نامے میں متعارف کرانے میں بھی کامیاب ہے۔ مصنف نے "اسعد بدایونی: شخص اور شاعر، اسعد بدایونی : اردو غزل اور اس کی روایت، اسعد بدایونی: ایک بے مثال انسان، اسعد بدایونی: جدید تر غزل۔ ہم عصر شعرا کے حوالے سے، اسعد بدایونی: اور تصور "انا"، اسعد بدایونی: تصور عشق۔ وغیرہ عنوانات کے تحت اسعد بدایونی کے کلام کا فکری، فنی اور موضوعاتی جائزہ مستند حوالوں کے ساتھ لیا ہے۔ اس تجزیہ سے اسعد کے کلام کی عصری معنویت واضح ہوتی ہے۔
خان رضوان کا تعلق صوبہ بہار کی مردم خیز سرزمین جہان آباد کے گاؤں سرین، ٹہٹا سے ہے- آپ نے ہندوستان کی معروف درس گاہ جامعتہ الفلاح سے 1998/ 99 میں عالمیت کی سند حاصل کی، اس کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی اے اور 2004 میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں دہلی یونیوسٹی سے 2012 میں "اسعد بدایونی بحیثیت شاعر"کے موضوع پر پروفیسر ابوبکرعباد کی سرپرستی میں ایم فل اور "اردو شاعری کا تہذیبی وثقافتی مطالعہ 19ویں صدی کے تناظر میں" کے موضوع پر 2020 میں پی ایچ ڈی کی اعلی سند حاصل کی-
اس کے علاوہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے اڈوانس ڈپلوما ان ماس میڈیا اردو اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، علی گڑھ چیپٹر سے اڈوانس ڈپلوما ان کمپیوٹر اپلیکیشن اردو کا کورس بھی کیا-
آپ نئی نسل کے منفرد لب ولہجہ کے شاعر ہونے کے ساتھ ایک سلجھے ہوئے نقاد کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت مستحکم کرچکے ہیں- اس کے علاوہ ان کی ادبی سرگرمیاں اور معاشرے میں متحرک تخلیقی شراکت جاری ہے ۔ زبان و بیان میں کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ ساتھ جدید اسلوب بھی ہے اور ان کا پورا شعری کینوس ایک ایسے فرد کی بازگشت ہے جو اپنے زمانے کے دکھوں کو انگیز کر رہا ہے ۔ عشق اور اس سے جڑی ہوئی کیفیات شاعروں کا حاوی وسیلۂ اظہار رہا ہے ، اس سطح پر بھی ان کے شعروں کی دھمک سنائی دیتی ہے ۔
خان رضوان کی اب تک پانچ کتابیں مختلف اداروں سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں- ان میں(1)"اسعد بدایونی بحیثیت شاعر-2013"(2)،"جدیدیت کا مغنی اسعد بدایونی-2015"(3)"کچھ بھی نہیں بدلا-2018" (شہپر رسول کی منتخب غزلیں-اردو اور ہندی ایڈیشن) (4)"اسعد بدایونی تنقیدی دائرے میں-2020"(5)"سبق آموز کہانیاں" متین طارق باغپتی کی بچوں کے لیے غیر مطبوعہ تربیتی کہانیاں جسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی نے شائع کیا ہے اہم ہیں-
خان رضوان کی درج ذیل کتابیں ابھی ترتیب و تصنیف کے مرحلے سے گزر رہی ہیں اور عنقریب منظر عام پر آئیں گی۔
1سخنِ کفر"(شعری مجموعہ)
2احمد بگھروی کی منتخب غزلیں
3 تذکرہ سید عبدالباری
4 تذکرہ ماہ وسال-1953تا2020"
5 عامر عثمانی کے اداریے
6 خامہ احساس(مجموعہ مضامین)
7 خان محمد رضوان کے تبصرے (دو جلدیں)
8 مائل خیر آبادی حیات وخدمات
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets