aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر کتاب "مخطوطات کے جائزے "پرمبنی ہے۔جس کا بنیادی موضوع وہ اردو مخطوطات ہیں جو پاکستان کے مختلف سرکاری ،غیر سرکاری اور ذاتی کتب خانوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔مصنف نے ان مخطوطات کے جائزے کے ساتھ ان کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کردی ہیں۔جیسے مخطوطوں کے دیگر نسخے،مطبوعہ نسخے ،مصنف کے حالات اور مآخذ پر خاص توجہ دی ہے۔اس طرح یہ کام مخطوطات کووضاحتی فہرست مرتب کرنے تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک سوانحی و کتابیاتی جائزے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔کتاب کی اہمیت اس اعتبار سے بھی مزید بڑھ گئی ہے کہ مصنف نے کتاب کو ایک حوالہ بنادیا ہے۔ایسا حوالہ جس میں مختلف کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں ہر طرح کی معلومات موجود ہیں۔جو ادب کے ہر طالب علم کے لیے مفید اور کارآمد ہے۔
نام خواجہ عبدالحی اور تخلص مشفق تھا۔۱۹؍دسمبر ۱۹۳۵ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۹۵۷ء میں بی اے(آنرز) اور ۱۹۵۸ء میں ایم اے (اردو) کراچی یونیورسٹی سے پاس کیے۔۱۹۵۷ء سے ۱۹۷۳ء تک انجمن میں علمی وادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ خدمات انجام دیں۔ وہ شاعر کے علاوہ کالم نویس ، نقاد، اور ایک بلند پایہ محقق تھے۔ بقول خواجہ صاحب پاکستان کی کسی ایک لائبریری میں اتنے ریفرنس بک نہیں ہیں جتنی ان کے کتب خانے میں ہیں۔ خواجہ صاحب ہمیشہ تصنیف وتالیف میں مشغول رہتے تھے۔ ان کی تصانیف وتالیفات کے نام یہ ہیں: تذکرہ’خوش معرکہ ریبا‘(جلد اول ودوم) از سعاد ت خاں ناصر، ترتیب وتدوین مشفق خواجہ، ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطات اردو‘‘(۱۲۴۸ صفحات پر مشتمل)’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘ ، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیات یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین)۔ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر تقریباً ۵۰ فیچر لکھے۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۸۸ء میں ان کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۲۱؍فروری۲۰۰۵ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:307
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets