aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جان نثار اختر بیسویں صدی کے ایک بڑے ترقی پسند اور رومانی شاعر ہیں۔ترقی پسند تحریک کے فعال رکن بھی ہیں۔ان کی شاعری میں جہاں معروضی صداقتوں کا برملا اظہار ہے وہیں ان کی شاعری رومانیت کی چاشنی سے بھی لبریز ہیں۔ کہیں کہیں مایوسی اورناامیدی کی پرچھائیں بھی جابجا ملتی ہیں۔ زیر مطالعہ جاں نثار اختر کے کلام کا انتخاب ہے۔جو انجمن ترقی اردو علی گڑھ نے اردوشاعروں کا انتخابی سلسلہ کے تحت شائع کیا ہے۔جس میں ان کی غزل ،جسارت ،تصور، عزم ،مراجعت ،زندگی وغیرہ نظمیں شامل ہیں۔
جاں نثار اختر۔ نام سید جاں نثار حسین رضوی اور اختر تخلص تھا۔۸؍فروری۱۹۱۴ء کو گوالیار میں پیدا ہوئے ۔ ان کا آبائی وطن خیرآباد(یوپی) ہے۔جاں نثار نے ابتدائی تعلیم وکٹوریہ کالجیٹ ہائی اسکول گوالیار میں حاصل کی اور وہیں سے ۱۹۳۰ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا۔۱۹۳۷ء میں بی اے (آنرز)اور ۱۹۳۹ء میں ایم اے (اردو) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۴۰ء میں ان کا تقرر وکٹوریہ کالج ، گوالیارمیں اردو لکچرر کی حیثیت سے ہوگیا۔ ۱۹۴۳ء میں ان کی شادی صفیہ سے ہوگئی جو اسرار الحق مجاز کی حقیقی بہن تھیں۔ ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا۔ گوالیار کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے اختر نے ریاست بھوپال میں سکونت اختیار کرلی۔ یہاں انھیں حمیدیہ کالج میں صدر شعبہ اردو وفارسی کی جگہ مل گئی۔ اس وقت صفیہ علی گڑھ میں پڑھاتی تھیں، وہ بھی اسی کالج میں لکچرر ہوگئیں۔ اختر ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ حکومت ہند نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندیاں عائد کردیں۔ چوں کہ ترقی پسند تحریک بھی اس پارٹی کی سرگرمیوں کا ایک رخ تھا اس لیے اختر کونوکری سے استعفا دینا پڑا اور انھوں نے بمبئی کی راہ لی۔ صفیہ حمیدیہ کالج، بھوپال میں ملازم رہیں۔ صفیہ، اختر کی جدائی میں کڑھ کڑھ کرتپ دق کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ اختر اپنی عسیر الحالی کی وجہ سے ان کا خاطر خواہ علاج نہ کراسکے۔ صفیہ لکھنؤ میں انتقال کرگئیں۔ صفیہ کے خطوط کے دو مجموعے ’’حرف آشنا’’ اور ’’زیر لب‘‘ کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ جاں نثار اختر بمبئی میں فلموں کے گیت لکھنے لگے، اس سے آمدنی میں بھی اضافہ ہوا اور شہرت بھی ملی۔ انھیں عارضۂ قلب لاحق ہوگیا اور وہ ۱۸؍ اگست۱۹۷۶ء کو بمبئی میں انتقال کرگئے۔ جاں نثار نے شاعری کا ذوق وراثت میں پایا تھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اور نشوونما علی گڑھ میں ہوئی۔ علی گڑھ کے دوران قیام یہ ’’انجمن اردوئے معلی‘‘ کے سکریٹری رہے اور ایک عرصے تک ’’علی گڑھ میگزین ‘‘ کی ادارت کی۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’سلاسل‘‘، ’’تارگریباں‘‘، ’’نذر بتاں‘‘، ’’جاوداں‘‘، ’’گھر آنگن‘‘، ’’خاک دل‘‘، ’’پچھلے پہر‘‘۔ نومبر ۱۹۷۴ء میں انھیں ’’خاک دل‘‘ پر نہرو ایوارڈ کا تین ہزار روپے کا انعام ملا۔ اترپردیش حکومت نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پانچ ہزار روپے کا عطیہ دیا۔ ان کی وفات کے بعد وزیر اعظم نے اپنے فنڈ سے دس ہزار روپے کا عطیہ ان کے خاندان کی امداد کے طور پر دیا اور اتنی ہی رقم حکومت مہاراشٹر نے دی۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:52
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets