aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نظیر صدیقی کے خاکوں کا مجموعہ " جان پہچان" پیش نظر ہے۔جس میں مشہورادبی شخصیتوں اور کچھ طلبا پر لکھے خاکے شامل ہیں۔ان خاکوں سے متعلق خود مصنف رقمطراز ہیں،" جان پہچان " میرے ان خاکوں کا مجموعہ ہے جن کے موضوعات کچھ مشہور و ممتاز ادبی شخصتیں ہیں ،کچھ جواں مرگ ادبی صلاحتییں اور ایک طالب علم جو امتحان کے دوران طلبہ او رپولیس کی گولی کا شکار ہوگیا تھا۔ اس پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خاکے کی بجائے نثری مرثیہ ہے۔ اسی طرح سود حیدرآبادی سے متعلق خاکہ بھی ان کی خودکشی کے بعد ان پر ایک تعزیتی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔ان خاکوں کے موضوعات سے میرے تعلقات سے نیاز مندانہ بھی رہے ہیں اور دوستانہ بھی ۔تاہم اس مجموعے کے نام کے لیے مجموعی طور پر مجھے " جان پہچان " کا لفظ زیادہ پسند آیا۔" نظیر صدیقی کا اسلوب خاکے جیسی صنف کے بہت موزوں ہے۔
نام محمد نظیر الدین صدیقی اور تخلص نظیر تھا۔ ۷؍نومبر ۱۹۳۰ء کو سرائے ساہو، ضلع چھپرا(بہار) میں پیدا ہوئے۔۱۹۵۳ء میں ڈھاکہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ۱۹۷۶ء میں ایم اے کیا۔ڈھاکا میں مختلف کالجوں میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔۱۹۹۰ء میں بیجنگ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ مقرر ہوئے۔ نظیر صدیقی نے اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی مضامین اور ریویو اورکالم لکھے۔ انھوں نے انشائیے اور شخصی خاکے بھی لکھے۔ تنقید نگاری ان کا بنیادی ذریعہ اظہار تھا۔وہ اردو کے ایک بہترین نثر نگار تھے۔۱۲؍اپریل ۲۰۰۱ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر اردو اور انگریزی میں ۲۰ سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:’شہرت کی خاطر‘(انشائیے)، ’تأثرات وتعصبات‘، ’میرے خیال میں‘، ’ادبی جائزے‘، ’تفہیم وتعبیر‘، ’اردو ادب کے مغربی دریچے‘، ’ڈاکٹر عندلیب شادانی۔ایک مطالعہ‘(تنقیدی مضامین)، ’جان پہچان‘(شخصی خاکے)، ’حسرت اظہار‘(مجموعہ کلام)، ’جدید اردو غزل۔ایک مطالعہ‘، ’اقبال اینڈ رادھا کرشن‘(انگریزی)، ’گزرگاہ خیال‘، ’اعتراف‘(جاپانی کتاب کا ترجمہ)، اس کتاب پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:248
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets