aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جاناں جاناں یہ فراز کا چھٹا شعری مجموعہ ہے جو کہ ۱۹۷۶ ء میں منظر عام پر آیا۔ فراز کا جب یہ شعری مجموعہ منظر عام پر آیا،تو وہ پاکستان نیشنل سنٹر کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ ذو الفقار علی بھٹو کے جمہوری حکومت کا دور تھا اور ذو الفقار علی بھٹو فراز کے آئیڈیل تھے،اس کے باوجود اس زمانے میں جمہوری حکومت کے خلاف مزاحمت کا بھر پور اظہار کیا ہے۔ جاناں جاناں تک آتے آتے فراز کا مذہبی مطالعہ وسعت اختیار کرجاتا ہے۔ احمدفراز اس مجموعے میں جنرل ایوب خان کے خلاف بھی مزاحمت کرتے نظرآتے ہیں۔ فراز جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف اس لیے ہو گئے کہ وہ بہت جلد سمجھ گئے تھےکہ یہ بھی پاکستانی عوام پرجبرمسلسل کی اگلی کڑی ہے۔ ان پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہاں بھی صرف ڈکٹیٹر کا چہرہ بدل گیا، حالات نہیں بدلے چنانچہ انھوں نے جنرل ایوب خان کی حکومت کو عوام کے حق میں زہرِقاتل قرار دیا۔فراز نے اس مجموعہ میں جنرل یحیٰ خان کے خلاف بھی احتجاج کیا ہے۔ یحی خان کی مخالفت دیگر چند وجوہات کے علاوہ اس لئے بھی شدت سے کی کہ اُن کی وجہ سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ فراز اس سانحےپرآخردم تک خون کے آنسو روتے رہے اور غداران وطن کو یاد کرکے کوستے رہے "جاناں جاناں" میں یحیٰ خان کےدور حکومت کے خلاف مزاحمتی عناصر کثرت سے موجود ہیں۔
احمد فراز ۱۲ جنوری ۱۹۳۱ کو کوہاٹ کے ایک معزز سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ احمد فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فراز ہوگیا۔ احمد فراز کی مادری زبان پشتو تھی لیکن ابتدا ہی سے فراز کو اردو لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا اور وقت کے ساتھ اردو زبان اور ادب میں ان کی یہ دلچسپی بڑھنے لگی۔ ان کے والد انہیں ریاضی اور سائنس کی تعلیم میں آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن احمد فراز کا فطری میلان ادب وشاعری کی طرف تھا۔ اس لئے انہوں نے پشاور کے ایڈورڈ کالج سے فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور باضابطہ ادب وشاعری کا مطالعہ کیا۔ احمد فراز نے اپنا کرئیر ریڈیو پاکستان پشاور میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر شروع کیا مگر بعد میں وہ پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ میں جب حکومت پاکستان نے اکیڈمی آف لیٹرس کے نام سے ملک کا اعلی ترین ادبی ادارہ قائم کیا تو احمد فراز اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے۔
فراز اپنے عہد کے سچے فنکار تھے حق گوئی اور بے باکی ان کی تخلیقی فطرت کا بنیادی عنصر تھی انہوں نے حکومت وقت اور اسٹیبلشمینٹ کی بدعنوانیوں کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کی پاداش میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ چھ سال تک کناڈا اور یورپ میں جلاوطنی کا عذاب سہتے رہے۔
فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج، مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے عشق، محبت اور محبوب سے جڑے ہوئے ایسے باریک احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی ہے جو ان سے پہلے تک ان چھوے تھے۔
فرازکی شخصیت سے جڑی ہوئی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے سب سے مقبول ترین شاعروں میں سے تھے۔ ہندوپاک کے مشاعروں میں جتنی محبتوں اور دلچسپی کے ساتھ فراز کو سنا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور شاعر کو سنا گیا ہو۔ فراز کی پزیرائی ہر سطح پر ہوئی انہیں بہت سے اعزازات وانعامات سے بھی نوازا گیا۔ ان کو ملنے والے چند اعزازات کے نام یہ ہیں۔ آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ (انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لیٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، ٹاٹا ایوارڈجمشید نگر (انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز۔
شعری مجموعے
جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ،تنہا تنہا، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک ، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفاپیشہ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets