aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
روبن فریئرمین کی یہ سب سے مشہور کہانیوں میں سے ہے جس میں تانیا نامی ایک لڑکی کی کہانی ہے۔ اس میں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی ہے لیکن اسے اپنے باپ کے ذریعے گود لیے لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔ لیکن جوانی سے پہلے اس کے بچپن کو بھی دکھایا گیا ہے جس میں اس کی عجیب عجیب خواہشات تھیں مثلاً جب وہ اپنی دوست فِلکا سے ملتی ہے تو سب سے پہلے اس سے جنگلی کتے کی ایک نسل ڈِنگو کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔ کہانی ان دونوں کی آخری ملاقات پر ختم ہو جاتی ہے۔ بڑے ہونے پر اسے اس نادر کتے کے بارے زیادہ کچھ یاد نہیں رہتا بلکہ اسے بعد میں یہ احساس ہوتا ہے دنیا اور زیادہ اسرار و طلسمات سے بھری ہوئی ہے۔ اس ناول پر اکادمک دنیا میں کئی پہلووٴں سے بحث ہوئی مثلاً کسی نے کہا کہ یہ کتاب روسی بچوں میں پنپنے والی تانیثیت کو دکھاتی ہے تو کسی نے کہا کہ فریئرمین ہمیں اسی ابتدائی عہد میں لے جانا چاہتے ہیں جب انسان فطرت سے انتہائی قریب ہوا کرتا تھا۔ اس کا ترجمہ اردو کی مایہ ناز مترجم خدیجہ عظیم نے کیا ہے۔ 1962 میں اس پر فلم بھی بن چکی ہے۔ انگریزی میں اس عنوان ہے the wild dog dingo or a tale of first love
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free