Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : ادا جعفری

اشاعت : 001

ناشر : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی

سن اشاعت : 1996

زبان : Urdu

موضوعات : خواتین کی تحریریں, خود نوشت

ذیلی زمرہ جات : خود نوشت

صفحات : 372

معاون : غالب اکیڈمی، دہلی

جو رہی سو بے خبری رہی
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

ادا جعفری اردو زبان کی معروف شاعرہ تھیں۔ آپ 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندانی نام عزیز جہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد ننھیال میں پرورش ہوئی۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی. شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں 1995ء میں ادا جعفری نے "جو رہی سو بے خبری رہی"کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھی اس سوانح عمری کے حوالے سے ادا جعفری خود لکھتی ہیں"یہ خود نوشت اک عام سی لڑکی اور ایک روایتی گھریلو عورت کی چھوٹی سی کہانی ہے جس میں کوئی کہانی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لڑکی اکیلی تھی اور بہت اکیلی۔ اپنے دل کی تنہائی میں گرفتار اور وہ عورت چار دیواری کے حصار میں رہ کر بھی اپنے وجود کی پہنائیوں میں سرگرداں رہی۔ اس نے سوچا کہ میں سائے کا پیچھا نہیں کروں گی۔ اب میرے سائے کو میرے پیچھے پیچھے چلنا ہوگا، جل کی مچھلی ریت پر جینے کا ہنر سیکھنا چاہتی تھی۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

جدید شعر و ادب کے معماروں میں ادا جعفری اک امتیازی مقام کی مالک ہیں ۔ ان کو اردو شاعری کی خاتون اوّل کہاجاتا ہے کیونکہ ان کی شاعری نے بیسویں صدی کی وسطی دہائیوں میں بہ اعتبار رہنمائی اور اثر پذیری اردو کی خاتون شعراء کے حق میں وہی کردار ادا کیا جو اٹھارہویں صدی میں ولی دکنی نے عام شعراء کے حق میں ادا کیا تھا۔ انھوں نے اپنے بعد آنے والی شاعرات کشور ناہید،پروین شاکر اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کے لئے شاعری کا وہ راستہ ہموار کیا جس پر چل کر ان لوگوں نے اردو میں خواتین کی شاعری کو عالمی معیارات تک پہنچایا۔

ادا جعفری روائتی ہونے کے باوجود جدید ہیں۔ بدلتی ہوئی دنیا اور اس کے سماجی و جذباتی تقاضوں کو اپنی روایت کے مثبت اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ادا جعفری کا خاص کارنامہ ہے۔ انھوں نے تہذیب کی شایستگی کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا شایستگی،دلآویزی اور صدا آفرینی کی مرکب خصوصیت ان کے شعری اور تخلیقی جوہر کو منفرد بناتی ہے۔ وہ شاعرات میں شعور و کیفیت کے اک نئے سلسلہ کی پیشرو تھیں ۔ احتجاج کی راہوں میں بڑھتے ہوئے بھی وہ ہوا کی ان خوشبوؤں کی اسیر رہی ہیں جن میں گزشہ موسم بہار کے پھولوں کی مہک باقی ہے۔ انھوں نے اک خاتون کی حیثیت سے انسان کی بعض ایسی نفسیاتی اور جذباتی کیفیا ت کی نقاب کشائی کی ہے جو کسی مرد شاعر سے ممکن نہیں تھا۔ اس کے ساتھ انھوں نے نسوانی فضا سے آگے بڑھ کر اور ذات کے حصار سے باہر نکل کرعام انسانوں کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ وہ نسوانیت کی نرمی کو اپنی امتیازی خوبی نہیں سمجھتیں۔ انھوں نے بطور شاعر کوئی رعایت نہیں چاہی۔ وہ سب کے لئے اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ ان کے یہاں مرد،عورت اور ایشیائی یاافریقی کا امتیاز نہیں۔ ادا جعفری کی شاعری بندھے ٹکے تنقیدی اصولوں کے دائرے میں قید نہیں ہو پاتی۔ اسے سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے فکر کی صحتمندی اوراور مزاج کی شایستگی ضروری ہے۔ ادا جعفری خارجی معیارات فکر سے زیادہ نجی تجربے سے حاصل کئے گئے شعور پر بھروسہ کرتی ہیں۔ شخصیت کی کلّیت اور سالمیت کے ساتھ ساتھ احساس کی نزاکت اور اس میں دکھ کی دھیمی دھیمی آنچ ان کی انفرادیت ہے۔

ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا، شادی کے بعد انھوں نے ادا جعفری کے نام سے لکھنا شروع کیا۔ وہ 1924ء میں بدایوں کے اک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ جب ان کی عمر تین برس تھی ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کا بچپن نانہال میں گزرا۔ والد کی شفقت سے محرومی کا ان کے دل پر گہرا اثر ہوا۔ ان کی تعلیم گھر پر ٹیوٹر رکھ کر کرائی گئی۔ انھوں نے اردو فارسی اور انگریزی میں مہارت حاصل کی۔ باقاعدہ کالج میں جا کر تعلیم حاصل نہ کر پانے کا ان کو ہمیشہ ملال رہا۔ ان کو بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ نو سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا شعر کہا اور ڈرتے ڈرتے ماں کو سنایا تو انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کی ابتدائی غزلیں اور نظمیں 1940ء کے آس پاس اختر شیرانی کے رسالہ "رومان" کے علاوہ اس وقت کے معیاری ادبی رسالوں "شاہکار"اور "ادب لطیف" وغیرہ میں شائع ہونے لگیں اور ادبی دنیا ان کے نام سے متعارف ہو گئی۔ اس وقت بھی ان کی شاعری میں عام نسائی شاعری سے انحراف موجود تھا۔ ان سے پہلے کی شاعرات نے فکری یا ہیئتی اجتہاد کا حوصلہ نہیں دکھایا تھا۔ 1936 میں اردو ادب میں شروع ہونے والی نئی تحریک نے نئے سماجی رشتوں کا احساس اور نیا تاریخی شعور پیدا کیا تو ادا جعفری بھی اس سے متاثر ہوئیں۔ وہ علی الاعلان ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں ہوئیں لیکن انھوں نے فرسودگی اور قدامت کی بیجا بندشوں سے خود کو آزاد کر لیا۔ 1947ء میں ان کی شادی برٹش انڈیا کے اک اعلی افسر نور الحسن جعفری سے ہو گئی۔ ملک کے بٹوارے کے بعد وہ پاکستانی ہو گئے اور 1948ء میں ادا جعفری بھی پاکستان چلی گئیں۔ جن علاقوں میں پاکستان بنا ان میں سماجی بندشیں ہندوستانی علاقوں کے مقابلہ میں سخت تھیں اور وہاں قابل ذکر خاتون ادیبوں کے ابھرنے کے امکانا ت نہیں تھے۔ ادا جعفری کی پاکستان میں اچھی آؤ بھگت ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افسانہ کے چار بڑے ناموں، منٹو، عصمت، بیدی اور کرشن چند میں سے عصمت کو چھوڑ کر سب کا تعلق اس علاقے سے تھا جو اب پاکستان ہے جبکہ شاعرات میں ادا جعفری کے ساتھ ساتھ پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض سب کی جڑیں ہندوستان میں ہیں۔ ادا جعفری کا پہلا مجموعہ کلام 1950 میں منظر عام پر آیا اور اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ اس کے بعد ان کے کئی مجموعے شائع ہوئے اور ادا جعفری نے شاعرات میں اپنی ممتاز جگہ بنا لی۔ انھوں نے جاپانی صنف سخن ہائکو میں بھی طبع آزمائی کی اور افسانے بھی لکھے۔انھوں نے اپنی سوانح حیات "جو رہی سو بے خبری رہی" کے نام سے شائع کرائی اس کے علاوہ انھوں نے قدیم اردو شعراء کے حالات بھی قلمبند کئے۔ ادا جعفری نے اک بھرپور مطمئن زندگی گزاری۔ شوہر کے ساتھ دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کی اور ان کے سیاسی سماجی اور تہذیبی حالت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ۔ نوے سال کی زندگی گزار کر 2014 میں ان کا انتقال ہوا۔

ادا جعفری محض اک جدید یا نسوانی لہجہ کی شاعرہ نہیں ہیں۔ وہ اپنے تخلیقی عمل میں اپنے ماحول اور گردو پیش سے غافل نہیں رہیں ان کی نظمیں ان کے سیاسی اور معاشرتی شعور کی عکاس ہیں۔ ان نظموں میں دردمندی اور حب الوطنی نمایاں ہے۔ جبکہ غزلوں میں تازگی،شعور کی پختگی اور فن پر مضبوط گرفت نمایاں ہے۔ وہ ذاتی اور نجی مسائل کو مجموعی انسانی مسائل کے اک پرتو کے طور پر دیکھتی ہیں۔ ان کی شاعری شخصی سے زیادہ سماجی ہے۔ ان کی آواز میں بہرحال رنج و الم، خواب و حقیقت، نشاط و مسرت، کی اک اپنی دنیا بھی ہے وہ ہر پیرایۂ اظہار میں سر تا سر شاعرہ رہی ہیں زندگی کے اثبات کا احساس اور خوابوں کو حقائق کے آئینہ میں سنوارنے کا طور ادا جعفری کا طور ہے۔ اور ان کا فن نئی اردو شاعری کی تاریخ کا اک درخشاں باب ہے۔

 

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے