aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پیش نظر " عطاالحق قاسمی کے اخبارات میں تحریر کردہ کالموں پر مبنی ہے۔ان کالموں میں سماجی ،سیاسی ،ادبی ،معاشی ، کوتاہیوں اور ناہمواریوں کے خلاف عطاالحق قاسمی کاشدید احتجاج عیاں ہے۔ظالم اور مظلوم کی نشاندہی اس کالموں میں جابجا نظر آتی ہے۔ان کے اسلوب کی تازگی ،طنز ومزاح کی چاشنی نے ان کالموں کو مزید دلچسپ او رپر اثر بنادیا ہے۔بقول سید ضمیر جعفری"عطاالحق قاسمی کی تحریر باریک چنائی کی تحریر ہے۔اس میں کوئی دراڑ ،کائی یا بھوبھل پن ،نہیں ہے۔اس کے جملے ،رشتہ بہ رشتہ ،نخ بہ نخ فوج کے جوانوں کی طرح قدم ملا کر چلتے ہیں اور حیرت اس بات پر ہے کہ اس عمل میں فاصلہ زیادہ طے کرتے ہیں اور گرد کم اڑاتے ہیں۔اس کی سوچ بشاشت میں گھلی اور صداقت میں تلی ہوتی ہے۔"بے شک عطاالحق قاسمی کے کالم صداقت اور بشاشت کی عمدہ مثال ہیں۔
عطا الحق قاسمی یکم فروری 1943 کوامرتسر میں پیدا ہوئے ۔ وہ نامور عالم دین اور تحریک پاکستان کے رہنما مولانا بہاءالحق قاسمی کے فرزند ہیں ۔انھوں نے تدریس کے شعبے سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، ساتھ ہی ساتھ صحافت سے بھی وابستہ رہے اور روزن دیوار سے کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیاجس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ تصانیف میں روزنِ دیوار سے ، عطایئے، خند مکرر، شوقِ آوارگی، گوروں کے دیس میں، شرگوشیاں، حبس معمول، جرمِ ظریفی، دھول دھپا، آپ بھی شرمسار ہو، دلّی دور است، کالم تمام، بازیچہ اعمال، بارہ سنگھے،ملاقاتیں ادھوری ہیں، دنیا خوب صورت ہے، مزید گنجے فرشتے، شرگوشیاں، ہنسنا رونا منع ہے، اپنے پرائے، علی بابا چالیس چور اور ایک غیر ملکی کا سفرنامہ لاہور کے نام سرفہرست ہیں۔
جناب عطا الحق قاسمی نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے کئی معروف ڈرامہ سیریل تحریر کیے جن میں خواجہ اینڈ سن، شب دیگ، حویلی اور شیدا ٹلی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیازاور ہلال امتیاز عطا کیا۔ آدم جی ادبی انعام اور اے پی این ایس ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ آج کل پاکستان ٹیلی وژن کے چیئرمین ہیں ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets