aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مظفر وارثی کا یہ نعتیہ مجموعہ روحانیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ خالق کی حمد، نبیؐ پاک کی نعت ، اصحاب کرام کے فضائل اور بزرگان دین کے مناقب پر پوری کتاب شعری زبان میں لکھی گئی ہے۔ کہیں پر طویل بحر میں تو کہیں پر چھوٹے بحر میں لکھا ہوا ہر شعر دماغ کو جھنجھوڑتا ہے۔ مجموعے کا اختتام حضرت حاجی وارث علی شاہؒ کی منقبت پر ہوا ہے۔ نثری نظم میں " خطبہ حجۃ الوداع " اسلام کی روح کو دل میں اتار دیتا ہے۔ " سراپائے حضور " میں حلیہ مبارک اس طرح بیان ہوتا ہے گویا آقائے مدنی کا دیدار ہورہا ہو۔ اس کتاب کو پڑھنے والا مطالعہ کے دوران دنیا سے بے خبر ہو کر روحانی دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔
نام محمد مظفر الدین احمد صدیقی اور تخلص مظفر ہے۔۲۳؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور لاہور میں بودوباش اختیار کی۔بہترین نعت گو کا ایوارڈ پاکستان ٹیلی وژن سے ۱۹۸۰ء میں حاصل کیا۔ غالب اکیڈمی دہلی کی جانب سے بہترین شاعر کا ’’افتخار غالب‘‘ ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔متعدد فلموں کے گانے بھی لکھ چکے ہیں، مگر جب سے نعت کہنا شروع کی، فلمی گانوں کو خیر آباد کہہ دیا۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’برف کی ناؤ‘(مجموعۂ غزل)، ’باب حرم‘(نعت)، ’لہجہ‘(غزل)، ’نورازل‘(نعت) ، ’الحمد‘(حمدوثنا)، ’حصار‘(نظم)، ’لہوکی ہریالی‘(گیت)، ’ستاروں کی آبجو‘(قطعات)، ’کھلے دریچے‘، ’بند ہوا‘(غزل)،’کعبۂ عشق‘(نعت)، ’لاشریک‘، ’صاحب التاج‘، ’گئے دنوں کا سراغ‘، ’گہرے پانی‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:282
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets