aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
انتظار حسین اردو ادب کے ایک ایسی قدآور شخصیت تھے جنھوں نے بالخصوص فکشن نگاری میں اپنے انفرادی اسلوب بیان کے ذریعہ ایک وسعت عطا کی ہے۔انھوں نے ایک ایسا فنکارانہ اسلوب یا پیرایہ اظہار اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کا افسانہ باذوق قاری کی تلقین کرتا ہے۔انھوں نےمغربی ہیئتوں کومشرقی سانچوں میں ڈھال کر اردو افسانے کو ایک نئی ڈگر پر لاکھڑا کیا ہے۔علامتی ،استعاراتی ،داستانوی ،اساطیری ،دیومالائی اسلوب سے افسانے کو مغرب کے جدید افسانے کے مقابلے میں لاکھڑا کردیا ہے۔پیش نظر ان کے افسانوں کا مجموعہ "کچھوے" ہے۔جس میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں۔جو اپنے موضوع اور پیشکش کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ان افسانوں کاایک اہم موضوع ماضی کی بازیافت ہے۔تقسیم ہند کا المیہ،وطن سے دوری ،بچھڑنے کا کرب ان کے افسانوں میں نمایاں ہے۔ان کے افسانے داستانوی اسلوب کے اپنی تہذیب و روایت کے عکاس ہیں،پیش نظر کتاب میں قدامت پسند لڑکی،فراموش،نیند، کچھوئے،رات ،واپس وغیرہ افسانے شامل ہیں۔
انتظار حسین 21 دسمبر 1925ءکو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے اور ایم اے اردو کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے، جہاں وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
انتظار حسین کا پہلا افسانوی مجموعہ ”گلی کوچے“ 1952ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب، بدلتے لہجوں اور کرافٹنگ کے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاہے۔ ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ انتظار حسین نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ ان کے یہاں نوسٹیلجیا، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدارکے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار، انداز اور لہجہ بہت شدید ہوجاتا ہے۔ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن اپنی تمام تر ماضی پرپرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔
انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک، چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام، جستجو کیا ہے، قطرے میں دریا، جنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی، کے نام سر فہرست ہیں۔
انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
یہ تحریر عقیل عباس جعفری کی ہے جو ایک معروف ادیب ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets