aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
فاطمہ حسن کا نام اردو ادب میں نسائی شعور کی تحریک کو فروغ دینے والی خواتین میں نمایاں ہے۔ ان کی کہانیاں نسائی احساسات و جذبات کی ترجماں ہیں۔ فاطمہ حسن نے نسائی مسائل اور نسائیت سے جڑے اہم موضوعات کو منفرد اسلوب میں پیش کیا ہے۔ فاطمہ حسن کی کہانیوں کا مجموعہ "کہانیاں گم ہوجاتی ہیں" پیش نظر ہے۔ یہ کہانیاں قاری کی سوچ و فکر کو وسیع کرتی ہیں۔ ان کہانیوں سے متعلق ضمیر علی بدایونی لکھتے ہیں۔ "ان کہانیوں میں فاطمہ نے اپنے خوابوں کو کاغذ پر اتارنے کی کوشش کی ہے۔ ان کہانیوں میں احساس کی گہرائی، جذبے کی شدت، تاریخ کا شعور اورتکنیک کی تازہ کاری موجود ہے۔ ان کہانیوں کا ایک سرا اجتماعی شعور سے ملا ہوا ہے تو دوسرا سرا اس تحریک سے جڑا ہوا ہے جو عورت کی انسانی صورت حال human condition کو ایک بہتر ماحول فراہم کرنے کے لیے چلائی گئی ہے۔ تاریخی طور پر اس تحریک کو مختلف شخصیتیں توانائی اور خون تازہ فراہم کرتی رہیں ۔"
شاعرہ، محقق، نقاد اور ادیبہ سیّدہ انیس فاطمہ زیدی اردو دُنیا میں فاطمہ حسن کے نام سے اپنی معتبر علمی اور ادبی شناخت رکھتی ہیں۔ وہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۵۳ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ شناختی کارڈ پر ان کی تاریخِ پیدائش ۱۴؍ مئی ۱۹۵۲ء ہے۔ چھوٹی عمر میں ہی والدین کے ساتھ ڈھاکا چلی گئیں۔ وہاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد ڈھاکا یونی ورسٹی میں بی اے آنرز (اردو) کی طالبہ تھیں جب سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ پیش آیا۔ اپریل ۱۹۷۳ء میں کراچی واپس آئیں اور یہاں سے بی اے پرائیوٹ اور پھر جامعہ کراچی سے ایم اے (جرنلزم) اور پی ایچ ڈی کیا۔ ان کے چارشعری مجموعے ’’بہتے ہوئے پھول‘‘ (۱۹۷۷ئ)، ’’دستک سے در کا فاصلہ‘‘ (۱۹۹۳ئ) ’’یادیں بھی اب خواب ہوئیں‘‘ (۲۰۰۴ئ) ، ’’فاصلوں سے ماورا (۲۰۱۹ء )شائع ہوچکے ہیں اور ادب کے سنجیدہ حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ابتدائی تین مجموعوںپر مشتمل کتاب ’’یادیں بھی اب خواب ہوئیں‘‘ روش پبلشرز لاہورنے شائع کی ہے۔ فاطمہ حسن نے محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ کے لیے شیخ ایاز کے اُردو میں ترجمہ کردہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام ’’شاہ جو رسالو‘‘ کی ادارت کی اور نیشنل بک فائونڈیشن کے لیے اس میں سے انتخاب بھی کیا جو ۲۰۱۶ء میں شائع ہوا۔ محکمۂ ثقافت سندھ کے لیے ہی شیخ ایاز کی نثری نظموں کی دو سندھی کتابوں کے تراجم پر نظرِ ثانی کرکے مجموعہ ’’اے آہو چشم کدھر‘‘ مرتب کیا۔ اس کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ورثہ سیریز کے لیے زاہدہ خاتون شروانیہ، پروین شاکر، منیر نیازی، ادا جعفری اور جمیل الدین عالی کے کلام کا انتخاب بھی تعارف کے ساتھ مرتب کیا۔فاطمہ کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’کہانیاں گُم ہو جاتی ہیں‘‘ (۲۰۰۰ئ) میں شائع ہوا۔ اس کی دوسری اشاعت جس میں بعد میں لکھی جانے والی کہانیوں کا اضافہ کیا گیا ہے، ۲۰۱۸ء میں ہوئی۔ ان کے مطالعاتی مضامین کا مجموعہ بھی ’’کتابِ دوستاں‘‘ (۲۰۱۱ئ)کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کی نسائی تنقید پر تین تالیفات ’’خاموشی کی آواز‘‘ (۲۰۰۴ئ) ، ’’فیمینزم اور ہم‘‘ (۲۰۰۵ئ) اور ’’بلوچستان کا ادب اور خواتین‘‘ (۲۰۰۶ئ) میں شائع ہوئیں اور پسندیدگی کی سند حاصل کی۔ فاطمہ حسن نے اُردو رسائل میں شائع ہونے والی اوّلین نہایت اہم شاعرہ زخ ش (زاہدہ خاتون شروانیہ) کی حیات و شاعری پر معیاری مقالہ لکھ کر جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔اس مقالے کے انجمن ترقی اردو کے زیراہتمام کتابی شکل میں دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس طرح فاطمہ حسن نے اردو ادب کی تاریخ میں فراموش کردہ ایک اہم شاعرہ کو تاریخ کا حصہ بنادیا ۔ فاطمہ حسن کے ادبی کام کی اہمیت کے پیشِ نظران کی شاعری کاانگریزی ترجمہ معروف دانشور ڈاکٹر ستیہ پال آنند (امریکا) اسٹیل ڈرائی لینڈ (آسٹریلیا) اور ڈیوڈ میتھیوز (برطانیہ) نے کیا ہے، انگریزی تراجم کا ایک انتخاب Strange was the Dream، ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا اجرا نومبر ۲۰۱۶ء میں ڈھاکا (بنگلہ دیش) کے عالمی ادبی میلے میں کیا گیا۔ اقبالیات پر اُن کی مرتب کردہ کتاب ’’مطالعۂ اقبال کی جہتیں‘‘ (۲۰۱۸ئ) میں شائع ہوئی۔ ان کی ایک اور بے حد اہم تحقیقی کتاب" اردو شاعرات اور نسائی شعور سو برس کا سفر(۱۹۲۰-۲۰۲۰)’’ کے عنوان سے ۲۰۲۱ ء میں شائع ہوئی ہے ۔اس کتاب کی اشاعت انجمن ترقی ارد وہند سے بھی ہوئی ہے۔
ان کی ایک نظم ’’آگہی‘‘ ۱۹۹۱ء میں بچوں کے عالمی سال پر یونیسف نے اپنے پوسٹرپر شائع کی اور ڈراما ’’حوّا کی بیٹی‘‘ کا تھیم سانگ بھی تھی۔ انھوں نے ہندوستان پاکستان کے علاوہ متعدد ممالک میں عالمی سطح کے مشاعروں اور کانفرنسوں میں شرکت کی اور وقیع مقالے پیش کیے ہیں۔
ان کی انتظامی صلاحیتوں اور ادبی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جناب جمیل الدین عالی نے ۱۹ مارچ ۲۰۱۴ء کو انھیں انجمن ترقی اردو پاکستان کی معتمد اعزازی کا عہدہ سپرد کیا۔ انجمن ترقی اُردو ایک نہایت اہم اور فعال ادارہ ہے جو اُردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے۔ انجمن کے رسالے ’’قومی زبان‘‘ کی ادارت بھی وہ خود کر تی رہیں۔ سہ ماہی ’’اردو‘‘ کو ایچ ای سی کے معیارات کے مطابق شائع کرنا شروع کیا۔ اُن کا ایک بہت اہم کام انجمن کی نئی عمارت ’اردو باغ‘ کی تعمیر کا آغاز اور متعینہ وقت میں اُس کی تکمیل، یہاں دفتر، کتب خانے اور مخطوطات کی منتقلی ہے۔ یہ مخطوطات ۱۹۷۳ء میں قومی عجائب گھر، کراچی میں امانتاً رکھوائے گئے تھے اب یہ اردو باغ میں منتقل ہوکر ڈیجلائز ہورہے ہیں۔
فاطمہ حسن ۱۹۷۷ء میں حکومتِ سندھ سے وابستہ ہوئیں اور ۲۰۱۲ء میں سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن سے ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ تربیت و تحقیق کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ اسی اثنا میں انھوں نے جامعہ کراچی کے شعبۂ اِبلاغِ عامہ میں جُز وقتی تدریس کی خدمات انجام دینا شروع کیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد محمد علی جناح یونی ورسٹی سے بحیثیت پروفیسر وابستہ ہوگئیں۔ تاہم انجمن کی مصروفیات کی وجہ سے اُنھوں نے جامعات میں تدریس کا سلسلہ منقطع کردیا، وہ وفاقی جامعہ اردو کی سینیٹ کی رکن رہی ہیں اور یہاں انھوں نے دفتری اردو مراسلت کا ایک کورس انجمن کے تعاون سے شروع کیا ۔ فاطمہ حسن، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد کی ایگزیکٹیو کونسل کی رکن رہیں اور اقبال اکیڈمی، لاہور کی گورننگ باڈی کی بھی رکن رہیں۔
ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں پاکستان اور بیرونِ پاکستان کی مقتدر ادبی تنظیموں نے اعزازات سے نوازا ہے۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ۲۰۱۲ء میں صدارتی ’’تمغۂ امتیاز‘‘ بھی ملا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets