aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
علی امام نقوی کے افسانوں میں معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کے مظاہر جابہ جہ نظر آتے ہیں۔ وہ زندگی کی لایعنیت سے معنی و مفاہیم اخذ کرتے ہیں۔ تاریخ کی دروغ گوئی ذہنی و معاشرتی الجھنوں کو اپنے افسانوں کا محور و مرکز بناتے ہیں۔ ابتدائی چند افسانوں کے علاوہ وہ افسانوں میں خود کلامی کے چکرویو میں نہیں گھرے رہے۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو نئی صورتِ حال میں ڈھال کر افسانے کو خلق کرنے پر قادر رہے۔ ان کے افسانوں میں بنتے ، بگڑتے ، الجھتے رشتے موجود ہیں۔ جیتے جاگتے کردار ہیں اور واقعات کی ترتیب و تزئین بھی ہے۔ ان کے افسانوں کی قرأت کرتے ہوئے قاری کو مطلق احساس نہیں ہوتا کہ افسانے کا پلاٹ یا اس کے کردار افسانہ نگار کی مرضی کے تابع ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جو علی امام نقوی کے افسانوں کو فن کا اعتبار عطا کرتی ہے۔زیر نظر کتاب "کہی ان کہی" ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے ، اس مجموعہ میں علی امام نقوی کے چودہ افسانے شامل ہیں۔
Ali Imam Naqvis is a noted fiction writer of modern times. He was born on 09 November, 1945. His father, Ameer Haider was a prosperous businessman. Naqvi could not continue his education beyond matriculation and joined his father’s business which he later abandoned and joined Iranian Consulate as a clerk. He started writing around 1970. Khiltey Huwey Bil was his first story that brought him to notice of literary readers. In 1980, he published his first story collection entitled Naye Makaan ki Deemak. He published four collections later: Mubahilah, Ghat’te Badhtey Saaye, Mausam azaabon Ka, and Kahi Unkahi. Naqvi also wrote novels called Teen Batti ke Rama and Bisaat. His last novel is a fine portrayal of the city of Bombay. Naqvi passed away on March 10, 2014.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free