aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شاعری میں ممتاز اور غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں انھوں نے مارکسی نظریہ کے زیر اثر معاشرے کے طبقاتی تصادم اور سماجی استحصال کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہوئے انقلاب کا نعرہ لگایا اور استحصال سے پاک معاشرہ کی تشکیل کا خواب دیکھا۔انھوں نے جس وقت شاعری شروع کی اس وقت انقلابی شاعری کا زور تھا اس لئے ان کے کلام میں بھی خطابت،بلند آہنگی مقصدیت اور ادب کے نام پر کھلے ہوئے اشتراکی پروپیگنڈے کے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فلموں میں بھی ان کو غیر معمولی شہرت اور کامیابی ملی۔وہ فلمی دنیا کے ان گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں ،مکالمے اور منظر نامے لکھے۔فلم ہیررانجھا کے تمام مکالمے منظوم لکھنا ان کا ایسا کارنامہ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ،وہ نظریاتی شاعر تھے پھر بھی اپنی رومانی فطرت کی وجہ سے ان یہاں اک غنائیت بھی پائی جاتی ہے۔انھوں نے اپنے عہد کے اہم موضوعات و واقعات کو خلیقی طور پر محسوس کیااور پھر اپنے مخصوص انداز میں پیش کر دیا۔انکےآخری دور کے کلام میں حقیقت پسندی ملتی ہے۔ان کی نظمیں فکر و فن کے اعلی معیار پر پوری اترتی ہیں۔ "کیفیات "کیفی اعظمی کی کلیات ہے۔جنھکار ،آخرِ شب ، آوارہ سجدے ، ابلیس کی مجلسِ شوری، بیان صفائی ، ابلیس کی مجلسِ شورا ،دوسرا اجلاس اور متفرقات اس کلیات میں شامل ہیں ، کلیات کے شروع میں ان کی بیٹی کا لکھا ہوا پیش لفظ اور "میں اور میری شاعری "کےعنوان سے خود کیفی صاحب کالکھاہوا مقدمہ بھی موجودہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets