aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
احمد فراز کی شاعری سے ہر عام و خاص واقف ہے ۔ انہوں نے ایک ضخیم کلیات چھوڑی ہے جس میں غزلیں اور بے پناہ مقبول نظمیں بھی ہیں۔ان کی شاعری رومان پر ور فضا میں سیر کرتی ہے ۔ انہوں نے ایسی شاعری کو تر جیح دی جو شباب کی پہلی کر ن دیکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں میں قبولیت حاصل کر سکے ۔اسی وجہ سے شاید انتظار حسین نے لکھا تھا ’’احمد فراز کی ترقی پسند شاعری نے مزدوروں اور کسانوں تک رسائی کی ہو یا نہ کی ہو لڑکیوں کے حلقے میں توبہت پائی، وہ اپنی سادگی میں سمجھتا رہا کہ احمد فرا ز کی غزل کچی عمر کی لڑکیوں کو بہت اپیل کر تی ہے مگر انہیں اصرار ہے کہ بوڑھی عورتیں بھی ان کی شاعری کی اس طر ح مداح ہیں جس طرح کچی عمر کی لڑکیاں ان پر ریجھتی ہیں۔‘‘ ان کی شاعری میں یہی نہیں بلکہ امکانی وسعتوں سے بہت آگے نئے اور روشن زمانوں کی خبر بھی ہے ، صدیوں کی تلاطم کا شعور بھی ہے اور پاکستا ن کے تلخ بھر ے عہد کا ادراک بھی ۔انہوں نے 14 شعری مجموعے یاد گار چھوڑ ے ہیں لیکن اس میں ایک مجموعہ ’’ اے عشق جنوں پیشہ ‘‘ شامل نہیں ہے ۔ کلام احمد فراز میں عشق و رومان کی حسین فضا تیار ہوتی ہے ۔ وہ نوخیز عمر کے ہمیشہ پسندیدہ شاعر رہے ہیں ۔
احمد فراز ۱۲ جنوری ۱۹۳۱ کو کوہاٹ کے ایک معزز سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ احمد فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فراز ہوگیا۔ احمد فراز کی مادری زبان پشتو تھی لیکن ابتدا ہی سے فراز کو اردو لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا اور وقت کے ساتھ اردو زبان اور ادب میں ان کی یہ دلچسپی بڑھنے لگی۔ ان کے والد انہیں ریاضی اور سائنس کی تعلیم میں آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن احمد فراز کا فطری میلان ادب وشاعری کی طرف تھا۔ اس لئے انہوں نے پشاور کے ایڈورڈ کالج سے فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور باضابطہ ادب وشاعری کا مطالعہ کیا۔ احمد فراز نے اپنا کرئیر ریڈیو پاکستان پشاور میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر شروع کیا مگر بعد میں وہ پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ میں جب حکومت پاکستان نے اکیڈمی آف لیٹرس کے نام سے ملک کا اعلی ترین ادبی ادارہ قائم کیا تو احمد فراز اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے۔
فراز اپنے عہد کے سچے فنکار تھے حق گوئی اور بے باکی ان کی تخلیقی فطرت کا بنیادی عنصر تھی انہوں نے حکومت وقت اور اسٹیبلشمینٹ کی بدعنوانیوں کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کی پاداش میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ چھ سال تک کناڈا اور یورپ میں جلاوطنی کا عذاب سہتے رہے۔
فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج، مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے عشق، محبت اور محبوب سے جڑے ہوئے ایسے باریک احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی ہے جو ان سے پہلے تک ان چھوے تھے۔
فرازکی شخصیت سے جڑی ہوئی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے سب سے مقبول ترین شاعروں میں سے تھے۔ ہندوپاک کے مشاعروں میں جتنی محبتوں اور دلچسپی کے ساتھ فراز کو سنا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور شاعر کو سنا گیا ہو۔ فراز کی پزیرائی ہر سطح پر ہوئی انہیں بہت سے اعزازات وانعامات سے بھی نوازا گیا۔ ان کو ملنے والے چند اعزازات کے نام یہ ہیں۔ آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ (انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لیٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، ٹاٹا ایوارڈجمشید نگر (انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز۔
شعری مجموعے
جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ،تنہا تنہا، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک ، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفاپیشہ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets