aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر تبصرہ کتاب قرۃ العین حیدر کا ناول "کار جہاں دراز ہے" ہے، یہ ایک سوانحی ضخیم ناول ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے، جلد اول میں اپنے والدین کے اور جلد دوم میں اپنے حلقہ احباب میں سے زیادہ تر ادبی شخصیتوں کا ہی ذکر کیا ہے، جلد سوم میں مختلف ممالک کے سفر، ادبی محافل اور ادبی شخصیات کے تذکرے ملتے ہیں۔ کرنٹ افئیر کے حوالے سے بھی کچھ باتیں کی گئی ہیں۔ اس ناول میں صرف قرۃ العین حیدر کی داستان حیات نہیں ہے بلکہ اس کے خاندان کی پوری تاریخ رقم کر دی گئی ہے اس لیے یہ صرف سوانحی ناول سے بلند تر چیز ہے۔ ناول کی تخلیق میں غضب تحقیقی کاوش موجود ہے۔ مصنفہ نے تاریخی خاندانی دستاویزات کی بنیاد پر اپنے تخیل کی مدد سے تخلیق کیا ہے۔ یہی دستاویزیت اور تخیل کی آمیزش اس کو سوانحی دستاویزی ناول کے درجہ تک لے آتی ہے۔ قرۃالعین حیدر کی تاریخ اور اپنی جڑوں کی تلاش سے دل چسپی اوران ورثاء کی عادات کی بدولت تاریخی حقائق کی دستاویزات کا ایک خزانہ ان کے ہاتھ آ جاتا ہے۔ پھر قرۃ العین حیدر کا تاریخی شعور اور فنی پختگی اسے "کار جہاں دراز ہے" جیسے شاہکار میں ڈھال دیتا ہے۔ تاریخ کی کھوج اور دستاویزات کے حصول کے لیے مصنفہ کو خاندان والوں کی مدد بھی لینا پڑی۔ قرۃالعین نے اس ناول میں ایک اور دستاویزی انداز یہ اپنایا ہے کہ ہر فصل کے آخر میں کسی تحقیقی مقالے کی طرح حوالہ جات بھی شامل کر دیے ہیں جہاں سے انہوں نے یہ تاریخی شواہد حاصل کیے ہیں۔ یہ اس ناول کی دستاویزیت کی ایک اور منفرد مثال ہے۔ ناول میں مختلف کردار ہیں جن کی زبانی ایک طرح داستانیں بیان ہوئی ہیں۔اس ناول میں خود قرۃ العین حیدر کا اپنا کردار ہے۔ جو ابتدائی جلد میں پس منظر میں رہتا ہے مگر آگے چل کر اس کی زندگی کی کہانی بھی شامل ہو جاتی ہے۔ ناول جیسے جیسے آگے بڑھتا رہتا ہے مزید دلچسپ اور داستانی ہوتا چلا جاتا ہے۔ بہت تاریخی واقعات و حادثات جب قرۃ العین حیدر کے قلم کے نیچے آتے ہیں تو ان میں خشکی کے بجائے ایک تری پیدا ہوجاتی ہے اور قاری تاریخی واقعات کو داستان کی طرح پڑھتا چلا جاتا ہے۔
قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets