Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : افتخار امام صدیقی

ناشر : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

سن اشاعت : 2012

زبان : Urdu

موضوعات : تحقیق و تنقید

ذیلی زمرہ جات : شاعری تنقید

صفحات : 292

معاون : مظہر امام

کرامت علی کرامت: ایک مطالعہ
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

افتخار امام صدیقی 19؍ ستمبر 1947ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اعجاز صدیقی تھے۔ ان کے دادا اردو ادب کے مشہور شاعر اور ادیب سیماب اکبرآبادی تھے۔ سیماب کے تقریباً تین ہزار شاگرد تھے۔ سیماب جب ممبئی آئے تو یہاں بھی انہوں نے ’’شاعر‘‘ کو جاری رکھا۔ بٹوارے کے بعد سیماب پاکستان چلے گئے۔ لیکن ان کے لڑکے اعجاز صدیقی پاکستان نہیں گئے اور آج افتخار امام نے ’’شاعر‘‘ کو جاری رکھا ہے۔افتخار امام کمرشیل شاعر تھے۔ ہندوستان وپاکستان دونوں جگہ پر مشاعرہ میں مدعو کئے جاتے تھے۔

ترنم سے پڑھتے تھے۔ سامعین انہیں پسند کرتے تھے۔ شاعر بھی اچھے ہیں۔ 2002ء کے حادثے کے بعد مشاعروں میں جانا بند کرنا پڑا۔ پہلے تو کچھ چل پھر سکتے تھے اب بالکل معزور ہوگئے ہیں۔ لیکن شاعر کا کام خود کرتے ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں تقریباً 100انٹرویو لے چکے ہیں جنہیں وہ اپنے رسالے میں شائع کر چکے ہیں اشاعت کے لیے تیار ہیں۔ شعری مجموعے ’’چاند غزل‘‘ بھی تیار ہے۔ حادثے کے بعد بھی انہوں نے بغیر اصناف کے کئی نعتیں کہیں ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ 2004ء سے آج تک روزانہ اشراق کی نماز کے بعد ایک حمد اور ایک نعت کہتے ہیں۔ انشا اللہ اس کا صلہ انہیں ضرور ملے گا۔

افتخار امام اپنی شاعری میں اپنی دانشوری کا کمال دکھاتے ہیں۔ ہندوستان اور بیرون ہندوستان مشاعرے میں کلام پڑھنے جایا کرتے تھے۔ بچپن سے انہیں گانے کا شوق تھا۔ ان کے والد کے ایک شاگرد غزل سنگر تھے۔ ان سے کچھ سیکھا۔ ابتدا میں فلمی گانے اور غزلیں گایا کرتے تھے۔ ان کے دادا سیماب اکبرآبادی ان سے غزلیں سنا کرتے تھے۔

افتخار امام کی کئی غزلیں مشہور سنگر نے گائی ہیں۔ 11مارچ 2002 ءکو بدقسمتی سے کسی مشاعرے سے واپسی کے وقت جبلپور میں آپ ایک حادثے سے دوچار ہوئے اور اپاہج ہوگئے۔ حوصلہ دیکھئے اس حالت میں مسلسل ’’شاعر‘‘ نکال رہے ہیں ہزاروں لوگوں کو مطمئن کرتے رہتے ہیں۔

اپنے دادا سیماب اکبرآبادی کے رسالہ ’’شاعر‘‘ کو پابندی سے شائع کر رہے ہیں۔ آج بھی شعروادب کے ذخیروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ ’’شاعر‘‘ کا ہر شمارہ ایک نئے موضوع پر شائع ہوتا ہے ایک ہی جگہ بیٹھ کر رسالے کے لئے اتنا مواد حاصل کرنا، یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

’’شاعر‘‘ نے چھوٹے بڑے سبھی شاعروں کا نمبر نکال کر ہم جیسے تذکرہ نگاروں پر بڑا احسان کیا ہے۔ میں نے اکثر شعروں کے مآخد کے طور پر شعرائے مہاراشٹر کے لئے استعمال کیا ہے۔ ورنہ شعراء حضرات کی لاپرواہی سے کون واقف نہیں ہے۔

تین بار ان کا آپریشن ہوا۔ 7 جنوری 2013ء کو دائیں پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مصیبت پر مصیبت سہتے جارہے ہیں۔ کبھی کبھار ادبی پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔ میری تحقیقی کتاب پر محل اشعار کی رسم اجرا عوامی ادارہ مدنپورہ کے زیر اہتمام ادا کی گئی تو آپ کو اسٹریچر پر لانا پڑا اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ دو متناعہ زبان زد اشعار کا تعلق ممبئی سے ہے۔ خلیق الزماں نصرت نے ان دونوں اشعار کی تحقیق کر کے حرف آخر کا رتبہ دے دیا ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے