aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کاشف الحقائق جسے بہارستانِ سخن بھی کہا جاتا ہے سید امداد امام اثر کی تصنیف ہے جو پہلی مرتبہ ۱۸۹۷ میں شائع ہوئی۔زیرِ نظر کتاب وہاب اشرفی نے مرتب کی اور یہ ترقی اردو بیورودہلی سے۱۹۸۲میں چھپی۔اسے اردو کی اولین تنقیدی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔اثر نے اسے دو حصوں میں منقسم کیا ہے،حصہ اول میں مختلف فنونِ لطیفہ،مختلف اقوام میں شاعری ،عرب کا شعری حوالہ اور اسلامی دور کی شاعری کا تذکرہ ہے۔حصہ دوم میں اسلامی خلافت کے بعد شعرائے عجم،مختلف شعری اصناف اور ہندوستان میں شاعری،غزل اور مختلف شعرائےاردو کے تذکرے ملتے ہیں۔
خواجہ الطاف حسین حالی کے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ کے بعد نظریاتی، عملی تنقید اور اصولِ نقد کے باب میں جو کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے اس کا نام ہے ’کاشف الحقائق‘ معروف ‘بہ بہارستان سخن۔ یہ واحد ایسی کتاب ہے جس میں شاعری کا رشتہ علم حیوانات، علم زراعت اور دیگر علوم سے جوڑا گیا ہے اور اس طرح اردو کو بین علومی تنقید کا ایک نقش عطا کیا گیا ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالی کے برعکس ’کاشف الحقائق‘ کی خوبی یہ ہے کہ اس کے مصنف نے براہِ راست مغربی ادب کا مطالعہ کیا ہے اور مغربی شاعرو ں کے علاوہ مختلف اقوام جہاں کی شاعری سے اپنی کتاب میں گفتگو کی ہے اور شاعری کو کئی زمروں میں تقسیم کرکے اس کا جائزہ لیا ہے۔ معروضی اور داخلی شاعری کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور اردو شاعری کی مختلف اصناف اور شعری ہیئتو ں پر بہت جامع بحث کی ہے۔ مختلف اصناف کے صنفی خصائص اور فنی لوازم پر بھی بہت عمدہ گفتگو ہے۔ موسیقی اور مصوری سے شاعری کے رشتے کی معقول وضاحت کی ہے۔ اس کے علاوہ ’کاشف الحقائق‘ کے مصنف اردو کے شاید واحد ایسے نقاد ہیں جنھوں نے علم زراعت پر ’کیمیائے زراعت‘ کے عنوان سے کتاب لکھی اور درختوں اور پودوں کے حوالے سے ’کتاب الاثمار‘ تحریر کی۔ یہ دونوں کتابیں اس لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ ان موضوعات پر اردو میں بہت کم کتابیں دستیاب ہیں ۔ ان دونوں کتابوں پر گفتگو نہیں ہوسکی جبکہ ان دونوں کتابو ںپر نئے زاویے سے گفتگو ہونی چاہیے تھی۔
’کاشف الحقائق‘ اور ان دو اہم کتابوں کے مصنف کا نام نواب سید امداد امام اثر ہے جن کی پیدائش 17اگست 1849 کو کراپرسرائے سالارپور، ضلع پٹنہ میں ہوئی۔ ان کا تعلق ممتاز علمی خانوادے سے تھا۔ ان کے ایک بزرگ شہنشاہ اورنگ زیب کے استاد تھے۔ ان کے والد شمس العلما سید وحیدالدین بہادر صدر الصدور مجسٹریٹ ا و رجسٹرار تھے اور دادا سید امداد علی بھی صدرالصدور تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سید محمد محسن بنارسی سے حاصل کی اور اپنے والد سید وحیدالدین سے بھی کسب فیض کیا۔ یہ وکالت سے وابستہ رہے اور بعد میں پٹنہ کالج میں تاریخ اور عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ریاست سورج پور ضلع شاہجہان آباد میں مدارالمہام کے منصب پر بھی فائز رہے۔ علومِ شرقیہ میں انھیں مہارت حاصل تھی۔ انھیں انگریزی حکومت کی طرف سے شمس العلماءاور نواب کے خطابات بھی ملے۔ انھوں نے دو شادیاں کیں۔ ان کی اولادوں میں علی امام، احسن امام، بہت ممتاز ہوئے۔ طبیعت میں بے نیازی تھی اور نواب خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود مزاج میں انکساری تھی۔ ان کا انتقال 17اکتوبر 1934 کو ہوا اور وہ مانپور روڈ آبگلہ، گیا بہار میں مدفون ہیں۔
امداد امام اثر ناول نگار، شاعر اور ناقد تھے۔ ان کی اہم کتابوں میں ’کاشف الحقائق‘ کے علاوہ’ مرأة الحکما‘، ’فسانٔہ ہمت‘، ’کتاب الاثمار‘، ’کیمیائے زراعت‘، ’فوائد دارین‘ اور ’دیوانِ اثر‘ اہم ہیں۔
امداد امام اثر کو شہرت ’کاشف الحقائق‘سے ملی۔ اس کتاب کی پہلی جلد میں انھوں نے مصر، یونان، اٹلی اور عرب کی شاعری سے گفتگو کی ہے اور عربی شاعری میں انھوں نے امرؤالقیس، متنبی کے علاوہ دیگر شعرا پر بحث کرتے ہوئے امرؤالقیس کا میر و غالب سے تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ مصر، یونان اور اٹلی کے شاعروں پر بھی بہت تفصیلی گفتگو کی ہے۔ دوسری جلد میں انھوں نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں کی اصنافِ سخن کا جائزہ پیش کیا ہے اور تقابلی اور تجزیاتی مطالعے بھی کیے ہیں۔ انھوں نے سنسکرت کی شعری روایات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ اگر سنسکرت کی شاعری پر توجہ دی جاتی تو صنفی سطح پر اردو شاعری کو بہت سی وسعتیں میسر آتیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ ’رامائن‘ اور ’مہا بھارت‘ جیسی رزمیہ شاعری فارسی میں بھی نہیں ہے۔ انھوں نے میر، غالب، ذوق وغیرہ پر بہت تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور اس طرح مختلف اقوام کی شاعری سے اردو کو متعارف کرایا ہے۔
امداد امام اثر اردو اور فارسی کے عمدہ شاعر تھے ان کا ایک دیوان ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے مرتب کیا ہے جو غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سے 2013 میں شائع ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets