aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
طاہر فراز مشاعروں کا جانا پہچانا نام ہے۔ انہوں نے زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو شعری ڈھانچے میں ڈھال کر اس مجموعے کو آراستہ کیا گیا ہے۔ مجموعے کے تقریباً ایک ثلث حصے پر ماہرین بیان و ادب کے تاثرات درج ہیں اور اس کے بعد غزلیات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اجمالی طور پر تاثرات میں مصنف کے بارے میں حیرت انگیز معلومات کا ذخیرہ جمع ہے ، غزلیاتی حصے میں ندرت و استعجاب کا سمندر رواں ہے۔ اس میں ماضی کی کھٹی میٹھی یادیں ہیں تو حال کی ہنگامہ آرائیاں اور مستقبل کا سنہریٰ خواب بھی ، کہیں شفقت کی رمق ہے تو کہیں اپنی جنگ آپ لڑنے کا درس اور کہیں پر عوامی نفسیات، ذہنی تقاضوں اور مسائل ومتعلقات اور ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ۔ کسی بھی غزل میں ابہام واغلاق اور فلسفیانہ انداز اختیار نہیں کیا گیا ہے بلکہ زندگی کی سچائیوں اور حقیقتوں کو سیدھے انداز میں ترسیل کی گئی ہے ۔اشعار میں توازن اور سنجیدگی ہے۔
طاہر فراز کی گفتگو عوام سے ہے۔ اس لیے ان کا لہجہ بھی عوامی ہے اور اس قدر کہ معمولی ذہنی سطح کا آدمی بھی ان کی شاعری سے حظ اٹھا سکتا ہے۔ اس نوع کی شاعری طبقاتی حد بندیوں کو توڑتی ہے اور شاعری کو ایک ہمہ گیر سورج ، چاند آسا صورت میں پیش کرتی ہے۔ طاہر فراز کا لہجہ اور آہنگ بہت خوبصورت ہے۔ مترنم آبشار کی مانند ہے ان کی غزل ۔ جو منفر د خوش آهنگ نامیاتی وجود ہے ان کی غزل کا ، وہ انہیں مشاعروں کے شاعروں سے بھی امتیاز کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں درد اور کسک، گیس کی فضا ملتی ہے اور یہی ٹیس ان کے لہجے میں پوری شدت سے طلوع ہوتی ہے تو کتنوں کو بے حال کر دیتی ہے اور کتنوں پر وجد طاری کر دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں جو از دل خیزد، بر دل ریزد، والی بات ہے، وہ کم کم شاعروں کو نصیب ہوتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets