aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ریاست جموں و کشمیر میں اردو زبان و ادب کی ابتداء ارتقاء اور عروج، مختلف شعرا اور نثر نگاروں کے حالات و واقعات اور ادبی تصانیف و خدمات کی پہلی مربوط صورت "کشمیر میں اردو" ہے۔ اس کتاب کے مصنف عبد القادر سروری نے اس کتاب کو تین جلدوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی جلد میں کشمیر میں اردو زبان کا آغاز اور اس کے طلوع ہونے کا منظر نامہ بیان کیا ہے۔ دوسری جلد میں اس بیان کو مفصل کرتے ہوئے اس دور میں ادیبوں کا تذکرہ بھی بہت تفصیل سے کیا گیا ہے۔ تیسری جلد میں اسی تذکرے کے سلسلے کو دور حاضر یعنی بیسویں صدی کی ساتویں دہائی تک لے آتے ہیں۔ سروری صاحب کی اس کتاب کو تنقید سے زیادہ تاریخ اور تذکرے کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں کچھ ایسے ادیبوں اور شاعروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا اس سے قبل تاریخ میں کبھی نام ہی نہ تھا۔ سروری صاحب نے اس کتاب میں کشمیر جیسی مختلف اللسان ریاست کی قدیم و جدید زبانوں کے عروج و زوال کا تذکرہ اس خوش اسلوبی سے کیا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف کشمیر میں اردو کی بلکہ اردو زبان کی تاریخ بن گئی ہے۔