aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
’’ کیرالا میں اردو زبان وادب ‘‘ ایک اہم تصنیف کیرالاہندوستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں اردو کسی کی مادری زبان نہیں ہے اس کے باوجود اردو کی ایک طویل تاریخ اس صوبہ سے وابستہ ہے ۔ اس موضوع پر ابھی حال ہی میں ڈاکٹر کے پی شمس الدین ترورکاڈ کی کتاب ’’ کیرالامیں اردو زبان و ادب ‘‘ آئی ہے ۔ یہ کتاب اس لیے بہت اہم ہے کہ اردو مراکز سے اس صوبہ میں اردو کو کس طرح اور کتنا فروغ ہوا ۔ اس کا اندازہ ان کی کتاب کے مطالعے سے ہوتا ہے ۔ یہ کتاب ان کے ۱۵ مضامین پر مشتمل ہے جو ظاہر ہے کہ مختلف اوقات میں لکھےگئے ہوں گے لیکن یہ تمام مضامین کیرالامیں اردو کے فروغ اور اردو کے مسائل سے متعلق ہیں ۔ لہذا انھیں علیحدہ علیحدہ مضامین سمجھنے کے بجائے ایک کتاب کے مختلف ابواب سمجھنا چاہیے ۔ مثلاً پہلا اور دوسرا مضمون کیرالامیں اردو زبان کی ابتدا اور اس کی مختصر تاریخ پر ہے ۔ انھوں نے کیرالامیں اردو کی آمد کی ابتدا پیرس کے ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کے ایک اہم سوال سے کیا ہے ۔ بلکہ ایک طرح سے ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈ نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تائید کی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ اردو اگر مختلف اقوام اور بالخصوص مسلمانوں کے میل جول سے پیدا ہوئی جس کی بنیاد پر پنجاب ، دہلی ، حیدر آباد اردو کی پیدائش کو اپنے علاقے سے وابستہ کرتے ہیں تو ان جگہوں سے بہت پہلے عرب تاجر ملابار میں آکر بسنا شروع ہوگئے تھے اور ان کے میل جول سے ایک نئی زبان کے فروغ کی بنیاد پڑ چکی تھی ۔ اس طرح مولانا سید سلیمان ندوی کا یہ کہنا ہے کہ ہندوستانی زبان ملباریوں کی موروثی ملکیت ہے صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ چودھویں صدی میں خلجی فوج کی کیرالایعنی ملابار ، کوچی ، ٹراونکور وغیرہ میں آمد سے زبانوں میں الفاظ کا لین دین زیادہ بڑھا اور اس طرح محمدتغلق کے زمانے تک اچھے خاصے اردو الفاظ کیرالاکی زبان میں شامل ہوگئے تھے ۔ ( ص ۔ ۱۵) یہاں کے لوگوں نے بھی لسانی تعصب کو فراموش کرکے اردو زبان و ادب کے فروغ دینے اور اسے رائج کرنے کی ہر کوشش کی ۔ جدید دور میں اردو کے مشہور مصنف اور شاعر نگار ایس ۔ ایم ۔ سرور نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ۔ میں اگر یہ بات کہوں کہ آج جو لوگ میں اردو کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں ۔ وہ ایس ۔ ایم ۔ سرور صاحب کے شاگرد اور ان ہی کے بنائے ہوئے لوگ ہیں ۔ ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈ نے ایک دلچسپ واقعہ اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ ملاپرم ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں کوڈور کے نام سے مشہور تھا ۔ یہ ایک تجارتی گاؤں تھا اور یہاں ہر شخص کدّو کی کاشت کرتا تھا ۔ یہ وہی پھل ہے جس سے پیٹھے کی مٹھائی تیار کی جاتی ہے لہذا یہاں بڑی تعداد میں بھٹکل ، آگرہ اور ممبئی سے لوگ کدّو کی خریداری کے لیے آیا کرتے تھے ۔ اس لیے سب سے زیادہ اردو کو فروغ کوڈور میں ہوا اور ہر شخص یہاں اردو میں بات چیت کرنے لگا جس کی وجہ سے اس گاؤں کا نام ’’ اردو نگر ‘‘ مشہور ہوگیا ۔ مجھے خود بھی ایک بار ایس ۔ ایم ۔ سرور صاحب نے کیرالاآنے کی دعوت دی ۔ جب میں ملاپرم پہنچا تو مجھے بہت سے لوگ اردو میں گفتگو کرنے والے ملے ۔ سرور صاحب مجھے وہاں کے ایک کالج ( گورنمنٹ کالج ، ملاپرم ) میں بھی لے گئے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انٹر اور بی ۔ اے کے لیول پر اردو پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد وہاں پر موجود تھی ۔ وہاں زبان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ملیالم ان کی مادری زبان ہے ۔ انگریزی اور ہندی وہ اپنی ضرورت کے لیے پڑھتے ہیں اور اردو ان کے شوق اور تہذیب کی زبان ہے لہٰذا ہر زبان وہ با آسانی بچپن سے سیکھتے ہیں سرکاری طور پر بھی اردو کے ساتھ کوئی متعصبانہ رویہ وہاں نہیں پایا جاتا ۔ سرور صاحب اردو کے اچھے شاعروں میں تھے اور انھوں نے وہاں اردو شعرا کی ایک نئی نسل تیار کر رکھی تھی جس نے آگے چل کر فروغ اردو کے کام کو سنبھالا ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے کیرالامیں اردو کی مختلف اصناف اور تعلیم و تدریس کا احاطہ اپنے مضامین میں کیا ہے انھوں نے کیرالامیں اردو شاعری ، کیرالاکی واحد اردو ناول نگار ، کیرالامیں اردو تعلیم اور درس و تدریس کا تاریخی پس منظر ، کیرالامیں اردو صحافت ، کیرالامیں افسانوی ادب ، کیرالامیں اردو کی صورت حال ( ۲۰۱۶) تک وغیرہ پر اچھے مضامین لکھے ہیں ۔ ان مضامین میں سے وہاں پر لوگوں میں اردو زبان کے ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے ۔ کیرالاہندوستان کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں ۔ ان میں تین زبانوں پر یعنی ملیالم ، انگریزی ، اور ہندی جاننے والے تو سبھی لوگ ملیں گے لیکن ایک بڑی تعداد آپ کو اردو بولنے والوں کی ملے گی ۔ جس میں برابر اضافہ ہورہا ہے ۔ یہاں پرایک خاص بات کا اور ذکر کرتا چلوں اردو نے بہت بڑی حد تک یہاں کی مقامی زبان ملیالی کو بہت شدت سے متاثر کیا اور ملیالم میں بلا تکلف اردو کے الفاظ شامل ہوگئے ۔ اردو زبان کی کتابوں کے ملیالم میں جو ترجمے ہوئے ان سے بھی اس پر گہرا اثر پڑا ۔ اقبال ، غالب اور ٹیگور نے یہاں کے شعرا کو بہت متاثر کیا جس سے ان کی فکر اور ان کی زبان بھی اثر انداز ہوئی ۔ ایک دلچسپ بات ہے کہ اردو غزل نےملیالی شاعری کو بہت متاثر کیا اور یہ صنف دھیرے دھیرے ملیالی شاعری کا حصہ بن گئی اور ملیالم میں غزلیں لکھی جانے لگیں ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے اس سلسلہ میں ملیالم کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ترقی پسند شاعر اوہ ۔ این ۔ وی ۔ کروپ کا حوالہ دیا ہے جو ملیالم میں غزلیں لکھنے کے لیےمشہور و مقبول ہیں ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے وہاں کے گیتوں اور فلموں پر بھی اردو کے گہرے اثر کا حوالہ دیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ آج اردو کو ملیالم سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا لسانی طور پر اردو کے الفاظ ملیالم میں کچھ اس طرح ضم ہوگئے ہیں کہ ملیالی اسے اردو الفاظ نہیں سمجھتے ۔ کیرالامیں ہر خاص و عام اور تمام مذاہب کے لوگ یکساں طور پر ملیالم بولتے ہیں ۔ یہ زبان کبھی تعصب یا فرقہ واریت کا شکار نہیں ہوئی ۔ اس لیے زبان میں سنسکرت اور تامل کے بعد سب سے زیادہ دخیل الفاظ اردو اور عربی کے ہیں ۔ ‘‘ اردو ملیالم کے رشتہ اور اس کے ارتقا ءکے سلسلے میں ’’ کیرالامیں اردو زبان و ادب ‘‘ کی تصنیف کے لیے میں ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعے ہم کیرالامیں اردو کی نشونما اور فروغ کو زیادہ بہتر طریقہ پر سمجھ سکیں گے اور کیرالااور شمالی ہند کے درمیان لسانی لین دین کے اور راستے کھلیں گے ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets