aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
’’ کیرالا میں اردو زبان وادب ‘‘ ایک اہم تصنیف کیرالاہندوستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں اردو کسی کی مادری زبان نہیں ہے اس کے باوجود اردو کی ایک طویل تاریخ اس صوبہ سے وابستہ ہے ۔ اس موضوع پر ابھی حال ہی میں ڈاکٹر کے پی شمس الدین ترورکاڈ کی کتاب ’’ کیرالامیں اردو زبان و ادب ‘‘ آئی ہے ۔ یہ کتاب اس لیے بہت اہم ہے کہ اردو مراکز سے اس صوبہ میں اردو کو کس طرح اور کتنا فروغ ہوا ۔ اس کا اندازہ ان کی کتاب کے مطالعے سے ہوتا ہے ۔ یہ کتاب ان کے ۱۵ مضامین پر مشتمل ہے جو ظاہر ہے کہ مختلف اوقات میں لکھےگئے ہوں گے لیکن یہ تمام مضامین کیرالامیں اردو کے فروغ اور اردو کے مسائل سے متعلق ہیں ۔ لہذا انھیں علیحدہ علیحدہ مضامین سمجھنے کے بجائے ایک کتاب کے مختلف ابواب سمجھنا چاہیے ۔ مثلاً پہلا اور دوسرا مضمون کیرالامیں اردو زبان کی ابتدا اور اس کی مختصر تاریخ پر ہے ۔ انھوں نے کیرالامیں اردو کی آمد کی ابتدا پیرس کے ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کے ایک اہم سوال سے کیا ہے ۔ بلکہ ایک طرح سے ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈ نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تائید کی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ اردو اگر مختلف اقوام اور بالخصوص مسلمانوں کے میل جول سے پیدا ہوئی جس کی بنیاد پر پنجاب ، دہلی ، حیدر آباد اردو کی پیدائش کو اپنے علاقے سے وابستہ کرتے ہیں تو ان جگہوں سے بہت پہلے عرب تاجر ملابار میں آکر بسنا شروع ہوگئے تھے اور ان کے میل جول سے ایک نئی زبان کے فروغ کی بنیاد پڑ چکی تھی ۔ اس طرح مولانا سید سلیمان ندوی کا یہ کہنا ہے کہ ہندوستانی زبان ملباریوں کی موروثی ملکیت ہے صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ چودھویں صدی میں خلجی فوج کی کیرالایعنی ملابار ، کوچی ، ٹراونکور وغیرہ میں آمد سے زبانوں میں الفاظ کا لین دین زیادہ بڑھا اور اس طرح محمدتغلق کے زمانے تک اچھے خاصے اردو الفاظ کیرالاکی زبان میں شامل ہوگئے تھے ۔ ( ص ۔ ۱۵) یہاں کے لوگوں نے بھی لسانی تعصب کو فراموش کرکے اردو زبان و ادب کے فروغ دینے اور اسے رائج کرنے کی ہر کوشش کی ۔ جدید دور میں اردو کے مشہور مصنف اور شاعر نگار ایس ۔ ایم ۔ سرور نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ۔ میں اگر یہ بات کہوں کہ آج جو لوگ میں اردو کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں ۔ وہ ایس ۔ ایم ۔ سرور صاحب کے شاگرد اور ان ہی کے بنائے ہوئے لوگ ہیں ۔ ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈ نے ایک دلچسپ واقعہ اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ ملاپرم ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں کوڈور کے نام سے مشہور تھا ۔ یہ ایک تجارتی گاؤں تھا اور یہاں ہر شخص کدّو کی کاشت کرتا تھا ۔ یہ وہی پھل ہے جس سے پیٹھے کی مٹھائی تیار کی جاتی ہے لہذا یہاں بڑی تعداد میں بھٹکل ، آگرہ اور ممبئی سے لوگ کدّو کی خریداری کے لیے آیا کرتے تھے ۔ اس لیے سب سے زیادہ اردو کو فروغ کوڈور میں ہوا اور ہر شخص یہاں اردو میں بات چیت کرنے لگا جس کی وجہ سے اس گاؤں کا نام ’’ اردو نگر ‘‘ مشہور ہوگیا ۔ مجھے خود بھی ایک بار ایس ۔ ایم ۔ سرور صاحب نے کیرالاآنے کی دعوت دی ۔ جب میں ملاپرم پہنچا تو مجھے بہت سے لوگ اردو میں گفتگو کرنے والے ملے ۔ سرور صاحب مجھے وہاں کے ایک کالج ( گورنمنٹ کالج ، ملاپرم ) میں بھی لے گئے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انٹر اور بی ۔ اے کے لیول پر اردو پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد وہاں پر موجود تھی ۔ وہاں زبان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ملیالم ان کی مادری زبان ہے ۔ انگریزی اور ہندی وہ اپنی ضرورت کے لیے پڑھتے ہیں اور اردو ان کے شوق اور تہذیب کی زبان ہے لہٰذا ہر زبان وہ با آسانی بچپن سے سیکھتے ہیں سرکاری طور پر بھی اردو کے ساتھ کوئی متعصبانہ رویہ وہاں نہیں پایا جاتا ۔ سرور صاحب اردو کے اچھے شاعروں میں تھے اور انھوں نے وہاں اردو شعرا کی ایک نئی نسل تیار کر رکھی تھی جس نے آگے چل کر فروغ اردو کے کام کو سنبھالا ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے کیرالامیں اردو کی مختلف اصناف اور تعلیم و تدریس کا احاطہ اپنے مضامین میں کیا ہے انھوں نے کیرالامیں اردو شاعری ، کیرالاکی واحد اردو ناول نگار ، کیرالامیں اردو تعلیم اور درس و تدریس کا تاریخی پس منظر ، کیرالامیں اردو صحافت ، کیرالامیں افسانوی ادب ، کیرالامیں اردو کی صورت حال ( ۲۰۱۶) تک وغیرہ پر اچھے مضامین لکھے ہیں ۔ ان مضامین میں سے وہاں پر لوگوں میں اردو زبان کے ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے ۔ کیرالاہندوستان کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں ۔ ان میں تین زبانوں پر یعنی ملیالم ، انگریزی ، اور ہندی جاننے والے تو سبھی لوگ ملیں گے لیکن ایک بڑی تعداد آپ کو اردو بولنے والوں کی ملے گی ۔ جس میں برابر اضافہ ہورہا ہے ۔ یہاں پرایک خاص بات کا اور ذکر کرتا چلوں اردو نے بہت بڑی حد تک یہاں کی مقامی زبان ملیالی کو بہت شدت سے متاثر کیا اور ملیالم میں بلا تکلف اردو کے الفاظ شامل ہوگئے ۔ اردو زبان کی کتابوں کے ملیالم میں جو ترجمے ہوئے ان سے بھی اس پر گہرا اثر پڑا ۔ اقبال ، غالب اور ٹیگور نے یہاں کے شعرا کو بہت متاثر کیا جس سے ان کی فکر اور ان کی زبان بھی اثر انداز ہوئی ۔ ایک دلچسپ بات ہے کہ اردو غزل نےملیالی شاعری کو بہت متاثر کیا اور یہ صنف دھیرے دھیرے ملیالی شاعری کا حصہ بن گئی اور ملیالم میں غزلیں لکھی جانے لگیں ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے اس سلسلہ میں ملیالم کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ترقی پسند شاعر اوہ ۔ این ۔ وی ۔ کروپ کا حوالہ دیا ہے جو ملیالم میں غزلیں لکھنے کے لیےمشہور و مقبول ہیں ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے وہاں کے گیتوں اور فلموں پر بھی اردو کے گہرے اثر کا حوالہ دیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ آج اردو کو ملیالم سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا لسانی طور پر اردو کے الفاظ ملیالم میں کچھ اس طرح ضم ہوگئے ہیں کہ ملیالی اسے اردو الفاظ نہیں سمجھتے ۔ کیرالامیں ہر خاص و عام اور تمام مذاہب کے لوگ یکساں طور پر ملیالم بولتے ہیں ۔ یہ زبان کبھی تعصب یا فرقہ واریت کا شکار نہیں ہوئی ۔ اس لیے زبان میں سنسکرت اور تامل کے بعد سب سے زیادہ دخیل الفاظ اردو اور عربی کے ہیں ۔ ‘‘ اردو ملیالم کے رشتہ اور اس کے ارتقا ءکے سلسلے میں ’’ کیرالامیں اردو زبان و ادب ‘‘ کی تصنیف کے لیے میں ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعے ہم کیرالامیں اردو کی نشونما اور فروغ کو زیادہ بہتر طریقہ پر سمجھ سکیں گے اور کیرالااور شمالی ہند کے درمیان لسانی لین دین کے اور راستے کھلیں گے ۔
ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ میں اردو زبان و ادب کا ایک ایسا نام ہے جس کی نثر بابائے اردو مولوی عبدالحق کے زمانے کی یادیں تازہ کرتی ہے ۔ آپ کی تنقیدی ، تجزیاتی اور تاثراتی تحریریں محور اردو ادب کا حصہ ہیں ،تحقیق فکشن اور بہت سی اصناف ادب پر آپ برسوں سے طبع آزمائی کررہے ہیں ، اسی لیے معروف قلمکاروں کی صف میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ادبی تخلیق ہماری اقدار کا ائینہ ہوتی ہے اور اقدار کا تعلق براہ راست ثقافت سے ہوتا ہے ،جو اس کی اصل اساس کہی جاتی ہے ۔ اقدار کی پاسداری اور عاس کا اظہار انتہائی عام فہم لفظیات اور ساد اسلوب میں اپنی رنگت دکھانے کا مزاج رکھنے والے ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے تحقیق اور معاصر فکشن نگاروں میں خود کو شامل کرنے میں کامیابی پائی ہے ۔ زبان کی باریکیوں سے خاص لگاو رکھنے کے جذبے اور ملکی جمہوریت و سیکولرزم کے سیاسی و سماجی تانے بانے کی واقفیت نےان کے افکار و نظریات کی ترسیل میں سہولت پیدا کی ہے ۔ قارئین سے جڑنے کا فن بھی انہیں آتا ہے ۔ کسی بھی موضوع میں فکری تنوع اور فنی لوازمات ان کی نثر کا غیر معمولی صفت شمار کیے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کی تخلیقات اردو ادب کے معیاری رسائل میں جگہ پانے میں کامیاب رہتی ہیں ۔ تعلیم کی بات کی جائے تو آپ نے ادیب فاضل ( کالیکٹ یونیورسٹی ، کیرالا) ڈپلومہ ان لینگویج ایجوکیشن (کیرالا گورنمنٹ) ، ایم اے اردو ( مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد ) سے کیا اور ایم فل ، ( سید محمد سرور حیات و خدمات اور ان کی شاعری ’’ ایس ۔ وی ۔ یونیورسٹی ، تروپتی ) سے مکمل کرکے پی ایچ ڈی ( ’’ کیرالا میں اردو ادب کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ’’ میسور یونیورسٹی ، میسور) سے کی اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے سے پہلے ہی وہ باقاعدہ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے تھے۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کے اپنے تعلیمی سفر کا عکس کہیں کہیں ان تحریروں میں بھی نظر آتا ہے اور تخلیق کار بننے کا جذبہ بھی ہم سمجھتے ہیں اچھوتے موضوعات اوراردو زبان و ادب کے پرانے ورثے کو نئے عنوانات دے کر اپنے خیالات اور تاثرات کے ذریعے بیان کردینے سے مقصد کی تکمیل ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے پانے کا خواب دیکھا ، جس کی تعبیر کا اشارہ انہیں قلم نے دیا ۔ اسی لیے ان کے مشاغل اور مصروفیات میں اردو زبان شامل ہے ۔ مثلاً مشاغل : نثر نگاری ، صحافت اور ، پسندیدہ اصناف : مضمون نگاری ، تحقیق ، تنقید و تبصرہ نگاری ، سوانح نگاری ، زبان کی تعلیم ، اشاعتِ کتب وغیرہ اہم درجہ رکھتی ہیں ۔ تکمیل مقصد کی خاطر ڈاکٹر کے۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کسی بھی صنف کا سہارا لیں ان کے مقصد کی تکمیل اور ہدف کے معنی میں تبدیلی نہیں آتی یہ امتیاز ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کے یہاں دیکھا جاتا ہے ۔ اسی بنیاد پر آپ کی تخلیقات میں اردو قارئین دلچسپی لیتے ہیں ۔ اخبارات و رسائل ( جن میں مضامین و کلام شائع ہوتا ہے ) وہ بھی خاصے معروف و مقبول ہیں ۔ اردو دنیا ’ آج کل ‘تریاق ‘ ہندوستانی زبان ’ نیا دور ‘ زرین شعاعیں ، ادب سلسلہ ، صدائے انصاری ، میرا پیام ، ہماری زبان ، تعلیمی دنیا ، نوائے ادب ، انوار تخلیق ، عاکف کی محفل ، دبستان ‘ ہندوستان ، اعتماد ، مصنف ، سالار ، ممبئی اردو نیوز ، راشٹریہ سہارا ، اردو ٹائمز ، جدید فکر وفن ، انشا ، تحریک ادب ، چشمہ اردو ، حکیم الاامت ، انتساب ، زبان و ادب ، زبان و بیان ، ادبی نشیمن ، اقبال ریویو ، اقبالیات وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کی نثر کے موضوعات و مضامین میں نئے اور چونکا دینے والے نکات یا حوالے ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی آپ بصیرت افروز انکشافات سامنے لانے کی بھی کوششیں کرتے ہیں ۔ حقائق کی روشنی میں جب بھی کسی دریافت کے سلسلے میں کتب سے جانکاری تلاش کرکے اپنے مضمون کو جلابخشتے ہیں ، تو اس مضمون کی وجہ سے نہ صرف اخبار و رسائل کا معیار بلند ہوتا ہے بلکہ اردو زبان کی اہمیت بھی بڑھتی ہے ، ایسا اس لئے شاید کرنے پر ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے زور دیا ہے کیونکہ غیر اردو خطے میں یہ کام کوئی آسان کام نہیں تحقیق و تنقید کے ذریعے نثر کی وقعت کا آج کے مشکل دور میں قارئین کو احساس کرانا لوہے کے چنے چبانے سے کم نہیں ۔ قارئین کہہ سکتے ہیں کہ ادب پسند ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ قبول کرلیا جائے ۔ ڈاکٹر ۔ کے ۔ پی شمس الدین ترورکاڈ بخوبی جانتے ہیں کہ قاری چاہتا ہے جو لکھا گیا ہے وہ قابل قبول ہے یا رد کیا جاتا ہے اسی سے لکھنے والا مبرا رہے ۔ اسی لیے اپنی نثر کے تعلق سے وہ کسی بھی خام خیالی کے حصار میں نہیں رہتے ۔ یوں بھی جو تخلیق کار اپنے تنقید و تضحیک و تنقیص تک ہضم کرنے کا مزاج بناتے ہیں ، یا خوش اسلوبی سے مدلل جواب دیتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے غالباً برسوں پہلے یہ اشارہ سمجھ لیا تھا کہ انہیں اگر اردو ادب میں کوئی مقام پانا ہے تو اپنے ادب نواز دائرہ کو وسیع کرنا ہوگا ، ادب میں جمہوریت اور ثقافت کے علاوہ کیرالا کے تمدن کا لحاظ برابر رکھنا ہوگا ۔ ساتھ ہی ساتھ قاری کی رائے کا احترام کرنا ہی اردو ادب کے فروغ اور ارتقا کی ضمانت ہے ۔ ان کی فہم و فراست اور ذہانت کا بھلا کوئی ایسا بھی ہے جو قائل نہ ہو ، ہندوستان کے طول و ارض میں آج ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ اگر عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں تو یہ ان پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل و کرم خاص اور ان کی صلاحیت و محنت کا ثمرہ ہے ۔ ادبی شوق سے بھی بڑا کام ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ نے لیا ہے ۔ جس طرح آپ کو کل ہند پیمانے پر اعزازات و انعامات ملے ہیں ، اکرام و توصیفات ملی ہیں ان سے آپ کی ذات پر جس قدر رشک کیا جائے کم ہے ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کے لکھے ادب سے اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا ہے کہ ادب کی عظمت خالص ادبی معیار ، یا تواریخی معلومات سے متعین نہیں ہوتی ۔ بلکہ افکار اور ثقافت کے تناظر کا بھی غیر معمولی دخل ہوتا ہے ۔ فنکار کا درجہ یا رتبہ اس کی تخلیق متعین کراتی ہے ۔ اس سلسلے میں نظر ڈالیں تو ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ یہاں بھی خوش قسمت رہے ہیں ۔ انعامات و اعزازت : (۱)۲۰۰۹ میں تامل ناڈو اردو اکیڈمی نےبرائے اردو معلمی اور اردو تحقیق کے لیے اعزازازی ایوارڈ (۲) ۲۰۱۱ میں ’’ سہردیا ایوارڈ‘‘ ترشور کیرالا (۳) ۲۰۱۲ میں سعودی عرب یانبو کیرالا مسلم کلچرل سینٹر کمیٹی کی جانب سے کیرالا میں بہترین اردو خدمات کے لیے اولین ایس ۔ ایم ۔ سرور ایوارڈ (۴) ۲۰۱۳ میں تامل ناڈو اردو پبلیکیشن اور تامل ناڈو اردو لٹریری ایسوسیشن کی جانب سے پروفیسر سید عبدالوہاب بخاری ایوارڈ (۵) ۲۰۱۳ میں ترورکاڈ اے ۔ ایم ۔ ہائی اسکول مینجینگ کمیٹی کا کے ۔ علوی حاجی اینڈومنٹ ایوارڈ (۶) ۲۰۱۴ میں عالمی یوم اردو کے موقع پر تلاشیری مسلم ایسوسیشن ( کیرالا) کاموسی ناصح ایوارڈ (۷)۲۰۱۵ میں عالمی اردو کے موقع پراردو ڈولپمنٹ آف انڈیا ( دہلی) کابابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ (۸) ۲۰۱۶ میں مسلم یوتھ لیگ ملاپرم کا کے ۔ ایم ۔ سیتی صاحب ایوارڈ (۹) ۲۰۱۷ میں انجمن فروغ اردو وانمباڈی ( تامل ناڈو) کا فروغ اردو ایوارڈ (۱۰) ۲۰۱۷ مئی کیرالا مسلم کلچرل سینٹر کمیٹی ابوظہبی کی جانب سے مئی علامہ اقبال اردو ایوارڈ (۱۱) ۲۰۱۹ تری فورم ( کالیکٹ) کی جانب سے م تری ایوارڈ (۱۲) ۲۰۱۹ میں انجمن روح ادب مسلم بورڈنگ ہاوس الہ آباد یونیورسٹی کی جانب سے کیرالا میں اردو زبان و ادب کی خدمات کے لئے جنگ بہادر سمع اللہ خان ایوارڈ (۱۳) ۲۰۲۲ میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کالیکٹ اسٹیڈی سینٹر کی جانب سے کیرالا میں اردو خدمات کے لئے مولانا آزاد اردو ایوارڈ (۱۴) ۲۰۲۳ میں کیرالا اسکول ٹیچرس یونین یوکا کو لاتور مولوی ایوارڈ (۱۵) ۲۰۲۳ میں سہ ماہی ادب سلسلہ کا مشرف عالم ذوقی ایوارڈ (۱۶)’’ کیرالا میں اردو زبان وادب ‘‘ کتاب کے لیے ۲۰۲۳ میں اترپردیش اردو اکادمی کا سند توصیف اور پچیس ہزار روپے کا انعام و اعزاز (۱۷) ۲۰۲۴ گلوبل رائٹرز ایسوسیشن ، اٹلی کی جانب سے ’’گرینڈ ایوارڈ‘‘ (۱۸)آپ کے اعزازات و انعامات کے لیے ’’ بلھے شاہ گولڈ میڈل ۲۰۲۵‘‘ پیش کیا گیا اور معراج سخن کے خطاب سے نوازا گیا ۔ آپ کے اعزازات و انعامات اور اکرام کے پیش نظر کچھ ایسے رسائل بھی ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے رسائل کی زینت بڑھانے کو موجب تسلیم کیا اور آپ کے لکھے اردو ادب کو ایک ثقافتی و تمدنی منظر نامہ کی حیثیت سے جگہ دے کر ادب میں شناخت قائم کرنے کے بعد اسے استحکام ہونے کا موقع عنایت کیا ۔ خصوصی طور پر جن رسائل میں آپ نے شرکت کی اور جنہیں ہم خصوصی گوشہ کا لقب دے سکتے ہیں ان میں سہ ماہی ادبی رسالہ ’’ تریاق‘‘ کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ خصوصی شمارہ ( جون ۲۰۲۲) ماہنامہ ’حکیم الاامت ‘ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ خصوصی شمارہ (جون ۲۰۱۸) مطبوعہ تصانیف : ( کل ۳ تصانیف) (۱) کیرالا میں اردو زبان وادب ‘‘ ( تحقیقی مضامین : ۲۰۱۸) (۲) ’’ معروضات و مصالعہ ( مضامین ۲۰۱۹) (۳) تنقیدی نگارشات ( تنقیدی مضامین ۲۰۱۲) شامل ہے ۔ ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کی فکر کا حصہ بننے والے دیگر ادبی کاموں پر تذکرہ کرنے کا یہ وقت نہیں ، بس کہ ایک تعارفی تاثر دینے میرا نظریہ تھا ، جملہ ادبی کاموں کا احاطہ پھر کبھی ، ہاں مگر آپ کی پیش قدمی کے امکانات روشن ہیں ، نمونے پیش کیے جائیں تو پھر الگ سے ایک اور تحریر معرض و جد میں آئے گی اور ہم ضرور اس کی دیکھنے کی سفارش ہر خاص و عام کے لیے کریں گے مگر اس خیال کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ کے لکھے اردو کا مطالعہ کی قارئین سے گزارش پھر بھی اس لحاظ سے کرسکتے ہیں کہ جو کام آپ نے کیا ہے اس میں کچھ حیرت کردینے والے نکات اور معلومات کے ذخیرے ہیں، نثر میں نیا پن ان کے مضامین کی خوبی کا اہم حصہ ہے ۔ اس لیے صاف ستھری نثر لکھنے والی ڈاکٹر کے ۔ پی ۔ شمس الدین ترورکاڈ جیسی شخصیت کا مزید حوصلہ بڑھانا ادب نوازوں کا فرض ہے ، غیر اردو خطے میں ملیالم اور دیگر علاقائی زبان و بولی کا جاننے اور استعمال میں لانے والا ، اگر اردو حامل ہوجائے ، تو بلاشبہ وہ شخص مجاہد اردو کہلانے کا حق رکھتا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ انصاف پسندی سے کام لیاجائے ، تاکہ اپنے تاثرات قلبی کو آئندہ کا ایک تجزیہ نگار بن کر اور پھر ایک تنقید نگار بن کر کوئی بھی آئندہ لکھنے والا میرے جیسا قلمکار فروغ اردو کا حصہ بننے والے کسی بھی شخص کا ذکر کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔ آپ کی موجودہ مصروفیت : معلم ’’ اردو ٹیچر اے ۔ ایم ۔ ہائی اسکول ترورکاڈ ‘‘ ، مدیر ’’ اردو بلیٹین ‘‘ ترجمان کیرالا اردو ٹیچرس ایسوسیشن ‘‘ سے منسلک ہیں ۔ خانگی زندگی : شریکِ حیات : فاطمہ ٹی ۔ ایم ۔ ٭ بیٹے اور بیٹیاں : فاطمہ آفرین ، عائشہ نسرین، محمد ندیم ، شامل ہے ۔ میں اپنے انہیں لفظوں کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ زندگی کے تجربات اور اسے بسر کرنے میں در پیش آئے عمدہ مسائل و مباحث کے حوالے ، کسی بھی زبان کے چاہنے والے کو عزت و شہرت اور عظمت سے سرفراز کراتے ہیں ۔ توقع ہے میری یہ تحریر اظہار پسندیدگی کی سند پائے گی ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets