aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب اور بدلتے لہجوں کے باعث پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج تھے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاؤ کرنا چاہا۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر حیرت کاایک ریلا سا آتا ہے جس کی بنا پر ان کے سنجیدہ قارئین کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔ ان کی خود ساختہ صورت حال حقیقت سے بہت دور ہے۔ اس طرح کی صورت حال تخیل کے حوالے سے یورپ میں سامنے آئی۔ ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ ان کے یہاں پچھتاوے، یاد ماضی، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدار کے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار کے ضمن میں بہت سی جگہوں پر انداز اور لب و لہجہ ترش ہو جاتا ہے۔ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کو نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار تھے، لیکن اپنی تمام تر ماضی پرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔ اس میں ویسی ہی کشش ہے جو چاندنی راتوں میں پرانی عمارتوں میں محسوس ہوتی ہے۔ زیر نظر افسانوں اسی طرح کی کچھ فضا محسوس کی جاسکتی ہے۔ "خالی پنچرہ" میں شامل افسانے دیوناگری رسم الخط میں پیش کئے جارہے ہیں۔
انتظار حسین 21 دسمبر 1925ءکو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے اور ایم اے اردو کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے، جہاں وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
انتظار حسین کا پہلا افسانوی مجموعہ ”گلی کوچے“ 1952ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب، بدلتے لہجوں اور کرافٹنگ کے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاہے۔ ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ انتظار حسین نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ ان کے یہاں نوسٹیلجیا، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدارکے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار، انداز اور لہجہ بہت شدید ہوجاتا ہے۔ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن اپنی تمام تر ماضی پرپرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔
انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک، چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام، جستجو کیا ہے، قطرے میں دریا، جنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی، کے نام سر فہرست ہیں۔
انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
یہ تحریر عقیل عباس جعفری کی ہے جو ایک معروف ادیب ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets