aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مشفق خواجہ "ادبی کالم نگاری" میں بلند پایہ شہرت کے حامل ہیں۔مشفق خواجہ خامہ بگوش کے قلمی نام سے روزنامہ جسارت اور ہفتہ روزہ تکبیر میں کالم لکھا کرتے تھے ۔وہ کسی بھی ہم عصر مشہور و معروف ادیب و شاعر یا اس کی کتاب کے بارے میں رو رعایت سے کام نہیں لیتے ۔ انھوں نے اپنے پرائے ، دوست دشمن سب پر بے لاگ تبصرہ کیا اور اس انداز سے کیا کہ پڑھنے کے بعد ادیب و شاعر تنہائی میں بیٹھ کر روتا رہا۔ یہ جرأت و ہمت کوئی معمولی نہیں تھی۔ اس کے اظہار کے لیے مشفق خواجہ نے جو اسلوب اختیار کیا تھا اسی نے ان کو ایک منفرد تبصرہ نگار اور نقاد بنایا تھا۔ اسی کے باعث ادبی دنیا میں ان کی علمی شخصیت بے انتہا مقبول ہو گئی تھی۔زیر نظر کتاب"خامہ بگوش کے قلم سے" طنزیہ و مزاحیہ کالموں کا منتخب نمونہ ہے،اس میں ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۰ء تک کے آٹھ برسوں کے دوران لکھے گئے کالموں کا انتخاب شامل ہے، اس میں انھوں نے کتاب اور صاحب کتاب پر جس بے باکی سے اظہارِ خیال کیا ہے اور جس انوکھے انداز اور منفرد رنگ میں روشنی ڈالی ہے اس کی مثال نہیں ملتی،ان کالموں کا براہ راست تعلق ادبا، شعرا، انشا پرداز، مترجمین، ناقدین اور محققین سے ہے۔ خامہ بگوش انھیں کو اپنا ہدفِ طنزو مزاح بناتے ہیں۔ موجودہ علم و ادب میں فکری انحطاط اور فنی گراوٹ کی واضح تصویر بھی ان ادبی کالموں میں چیدہ چیدہ ملتی ہیں۔
مظفر علی سید کی پیدائش ٭6 دسمبر 1929ء اردو کے معروف نقاد، محقق اور مترجم مظفر علی سید کی تاریخ پیدائش ہے۔ مظفر علی سید امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی تصانیف میں تنقید کی آزادی اور تراجم میں فکشن، فن اور فلسفہ اور پاک فضائیہ کی تاریخ کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کئے۔ مظفر علی سید نے 28 جنوری 2000ء کو لاہور میں وفات پائی۔وہ لاہور میں کیولری گرائونڈ قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets