aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کتاب کا نام اس کی آخری کہانی "خط مرموز" پر رکھا گیا ہے ۔ دس کہانیوں پر مبنی اس کتاب میں تمام کہانیاں اپنے اندر کوئی نہ کوئی پیغام سموئے ہوئی ہے ۔ پہلی کہانی محبت کا پیغام دے رہی ہے تو بعد کی کہانیوں میں زمانے کے درد، عورتوں میں خوف، سماجی رابطے اور وقت کے نشیب و فرازکو بتایا گیا ہے۔ مصنفہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب شعر کہتی ہیں تو اس میں زمانے کا درد ہوتا ہے اور جب کہانیاں لکھتی ہیں تو ان کی ہر کہانی تجربات اور مشاہدات سے لبریز ہوتی ہے۔ زیر نظر کتاب کی تمام کہانیوں میں قاری کو زمانے کا درد اور نئے تجربات کا سامنا ہوگا۔
نام فہمیدہ ریاض اور تخلص فہمیدہ ہے۔۲۸؍جولائی ۱۹۴۵ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ لندن سے فلم ٹیکنک میں ڈپلوما حاصل کیا۔طالب علمی کے زمانے میں حیدرآباد میں پہلی نظم لکھی جو ’’فنون‘‘ میں چھپی۔ پہلا شعری مجموعہ ’’پتھر کی زبان‘‘ ۱۹۶۷ء میں منظر عام پر آیا۔’’بدن دریدہ‘‘ ۱۹۷۳ء میں ان کی شادی کے بعد انگلینڈ کے زمانہ قیام میں چھپا۔’’دھوپ‘‘ ان کا تیسرا مجموعۂ کلام ۱۹۷۶ء میں چھپا۔ کچھ عرصہ نیشنل بک کونسل ، اسلام آباد کی سربراہ رہیں۔جب جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے تو یہ ادبی مجلہ’’آواز‘‘ کی مدیرہ تھیں۔ ملٹری حکومت ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی ۔ یہ ہندوستان چلی گئیں۔ ’’کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے‘‘۱۹۴۸ء میں ہندوستان میں ان کا شعری مجموعہ چھپا۔ ضیاء الحق کے انتقال کے بعد فہمیدہ ریاض پاکستان واپس آگئیں۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:’حلقہ مری زنجیر کا ‘، ’ہم رکا ب‘، ’ادھورا آدمی‘، ’اپنا جرم ثابت ہے‘، ’ میں مٹی کی مورت ہوں‘، ’آدمی کی زندگی‘۔ ان کی محبوب صنف سخن نظم ہے ۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:381
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets