aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر تبصرہ کتاب "خرمن" شفیق جونپوری کا شعری مجموعہ ہے، جس میں غزلیں، نظمیں، رباعی اور قطعات ہیں۔ نظمیں کے زیادہ تر موضوعات حالات حاضرہ سے مستعار ہیں۔ کچھ اسلامی و انقلابی نظمیں بھی ہیں۔ شفیق جونپوری نظم اور غزل پر یکساں قدرت رکھتے ہیں، ان کی غزلوں میں قدیم و جدید کا بہترین سنگم ہے۔ ان کا تغزل انفرادیت رکھتا ہے، ان کی غزلوں کا آہنگ بھیڑ میں بھی آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ کتاب کے شروع میں پروفیسر رشید احمد صدیقی اور ماہر القادری کی مختصر گفتگو ہے، جس سے شفیق جونپوری کی شاعری پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔
شفیق جونپوری اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جن کی شاعری کا رشتہ اپنے عہد کے سیاسی ، سماجی اور تہذیبی مسائل سے بہت گہرا اور بہت تخلیقی رہا ہے۔ نظموں کے علاوہ ان کی غزلوں میں بھی یہ عصری حسیت مخلتف انداز میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے غزل کی کلاسیکی لفظیات کو نئے معنیاتی نظام سے ہم آہنگ کرنے کی شاندار کوشش کی ہے۔ اپنی انہیں خصوصیات کی وجہ سے شفیق اپنے وقت میں بہت مشہور اور مقبول ہوئے۔
شفیق جونپوری (اصل نام ولی الدین) 26 مئی 1902 کو پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ چھوٹی سی عمر میں ہی روزگار کے مسائل میں پھنس گئے لیکن شاعری کا شوق روز بروز بڑھتا گیا۔ حفیظ جونپوری ، نوح ناروی اور حسرت موہانی سے کلام پر اصلاح لی۔ شفیق کے شعری مجموعے : تجلیات ، بانگ جرس ، حرمت عشق ، شفق ، طوبی ، سفینہ ، فانوس ، خرمن ، شانہ ، نے ۔ شفیق نے دو سفرنامے بھی لکھے ۔ ’حجاز نامہ‘ اور ’خاتم‘ ۔ یہ دونوں سفرنامے اپنے خوبصورت اسلوب کی بنا پر بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets