aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں تشکیل پانے والی شہری سوسائٹی جو نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ معاشرت کی ترجمان ہے اس کے باطنی حقائق کو نہایت جرات کے ساتھ شوکت صدیقی نے اپنے ناول "خدا کی بستی " میں پیش کیا ہے۔ مذہب اور جمہوریت کو ڈھال بنا کر ہوس پرستی اور دھوکہ دہی کو شعار بنایا جا رہا تھا۔ ایسے پر فریب معاشرے کو آئینہ دکھانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ شوکت صدیقی نے اپنے اس ناول میں انسانی اغراض پر وجود میں آنے والے معاشرے کی تصویر کشی فکشن کے خطوط پر ضرور کی ہے لیکن سماجی اور انسانی نفسیات کا تجزیہ اتنا فنی انداز میں کیا ہے کہ کہانی کو حقیقی زندگی کے بالکل قریب کر دیا ہے۔ اس کے سارے کردار سچائیوں کے ساتھ ماحول کی مناسبت سے اپنے کردار کو فطری بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ ناول نگار نے انسانی جبلتوں کو ان کے نفسیاتی عمل کے ذریعہ پیش کیا ہے ۔ اس ناول کے مرکزی کردار راجہ اور نوشہ ہیں جن کی عمر چودہ پندرہ برس ہوگی ۔ یہ ناول ایک ایسے معاشرے کی تصویر ہے جو خود غرضی کی انتہا کو پہونچ چکاہے ۔ جہاں انسانی اقدار دم توڑ چکی ہیں ۔ ایک بے حس معاشرہ سلطانہ اور اس کی ماں کی جنسی استحصال کو چپ چاپ دیکھتا رہا ۔ سلمان کی بیوی رخشندہ محض زیورات اور قیمتی ملبوس کے لئے جعفری کے اشارے پر غیر ملکی گاہکوں کو خوش کرتی رہی اور اس کی بے وفائی اور بد چلنی کو ترقی پسندی کا عنوان دیتی ہے ۔ شوکت صدیقی نے اپنے ناول میں سماجی حقیقت نگاری کی روایت کو وسعت دی ہے جس کی تعمیر پریم چند نے کی تھی ۔ ان کا طبقاتی شعور اور انسان دوستی کا تصور ناول میں پریم چند سے آگے کی راہ دکھاتا ہے ۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free