aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
خواجہ حیدر علی آتش لکھنوی فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے، نواب تقی خان کے ساتھ وہ لکھنؤ آگئے تھے، وہ آزاد طبع اور حسن پرست آدمی تھے۔سپاہیانہ لباس پہنتے تھے اور ہر وقت تلوار لٹکائے رکھتے تھے، مصحفی ان کے استاد تھے،آتش نے غزل کے سوا کچھ نہیں لکھا۔انہوں نے شاعری کومرصع سازی کا نام دیا، آتش کے مزاج میں جو قلندرانہ شان تھی وہ ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔آتش کا اردو کے شیریں کلام شاعروں میں شمار ہوتا ہے۔ان کی شاعری میں زبان کا حسن اور جذبے کی صداقت دونوں گھل مل جاتی ہیں اور یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔زیر نظر کتاب خواجہ حیدر علی آتش کی حیات و شاعری پر ایک تحقیقی مقالہ ہے، اس کتاب میں آتش کی شاعری ، ان کی زندگی کے نظریات، ان کے شاعرانہ افکاراوردیگر مضبوط حقائق کے ساتھ ساتھ شاعرانہ عظمت کو عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس کتاب میں آتش کی پوری زندگی کو بحیثیت شاعر بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔شعیب راہی نے اس کتاب میں جہاں اس وقت کے لکھنو اور فیض آباد کے معاشرے کی تصویر کھینچی ہے وہیں اس دور کے کچھ نئے پہلو بھی اجاگر کئے ہیں جو پہلو اس کتاب سے پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھے ، اس کے علاوہ اودھ کی حکومت اور وہاں کے سیاسی ، سماجی ، اخلاقی ، معاشی اور اقتصادی حالات کی عکاسی بھی کی گئی ہے، اس دور میں انگریزوں کی حکمرانی اور مسلم حکمرانوں کی باہمی چپقلش اور عیش پرستی کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free