aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مولانا ماہر القادری اپنے عہد کے بڑے شاعر، ادیب اور نقاد تھے۔ انہوں نے ادب میں اسلامی فکر کو فروغ دیا۔ مولانا ماہرالقادری نے رومانی‘ سیاسی‘ ملی‘ مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر بے شمار نظمیں لکھیں‘ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک اور مقبول شاعر تھے۔ مذکورہ کتاب کردار ماہرالقادری کا تمثیلی ناول ہے۔ جس میں انہوں نے کردار کو موضوع بنایا ہے۔ اس ناول کے مطالعے میں ایک پاکیزہ محبت، دلچسپ افسانوی انداز، تہذیب نو پر تنقید اور سماج کی واضح تصویر ملے گی اور ساتھ ہی ماحول کے مطالعہ میں زاویۂ نظر بدلنے کی ضرورت بھی محسوس ہوسکتی ہے، ساری باتیں زمینی ہیں اور ماحول سے ماخوذ ہیں ۔ بات کہنے کا طریقہ مختلف ہے۔ سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ناول انیس عنوانات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔ ناول کی شروعات میں محمد اقبال سلیم کا ایک مضمون دو لفظ کے عنوان سے شامل ہے۔
ماہر القادری ایک بہترین نثر نگار اور کلاسیکی طرز کے شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ نام منظور حسین تھا 30 جولائی 1906 کو کیسر کلاں ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ 1926 میں علی گڑھ سے میٹرک کرنے کے بعد بجنور سے نکلنے والے مشہور اخبار ’مدینہ‘ سے وابستہ ہوگئے۔ ’مدینہ‘ کے علاوہ اور بھی کئی اخباروں اور رسالوں کی ادارت کی۔ ممبئ میں قیام کے دوران فلموں کے لئے نغمے بھی لکھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور کراچی سے ماہنامہ ’فاران‘ جاری کیا جو بہت جلد اس وقت کے بہترین ادبی رسالوں میں شمار ہونے لگا۔ ماہر القادری نے تنقید ، تبصرہ ، سوانح ، ناول کے علاوہ اورکئی نثری اصناف میں لکھا ۔ ان کی نثری تحریریں اپنی شگفتگی اور رواں اسلوب بیان کی وجہ سے اب تک دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ ماہر القادری کی بیس سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں۔ آتش خاموش ، شیرازہ ، محسوسات ماہر ، نغمات ماہر ماہر ، جذبات ماہر ، کاروان حجاز ، زخم ومرہم ، یاد رفتگاں ، فردوس ، کردا ، طلسم حیات ۔12 مئی 1978 کو جدہ میں ایک مشاعرے کے دوران حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوا۔