aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پیش نظر قیصری بیگم کی خودنوشت سوانح عمری ہے۔جس میں ان کے خاندان ، ددھیال اور ننھیال کے علاوہ ان کی زندگی کے اہم واقعات ، تجربات ، مشاہدات اورروایات کو سادہ سلیس بے تکلف انداز میں پیش کیا ہے۔ قیصری بیگم نے اپنی حیات میں چھوٹا سا مکتب چلایا، دینی موضوعات پرکئی کتابچے لکھے ، چٹکلے ، آزمودہ نسخے ، گیت، کہاوتیں ، حمد و نعت کے رسالے بھی لکھے ۔اس کے علاوہ لغات القران مرتب کی۔ مذکورہ تحریروں کا تجزیہ بھی سوانح حیات میں درج ہے۔ اس سوانح حیات کوزہرا مسرور احمد نے مرتب کیا ہے۔
قیصری بیگم (1888-1976) دہلی کے ایک ممتاز سیاسی اور ادبی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا، ڈپٹی نذیر احمد (1831-1912) کو اردو زبان کا پہلا ناول نگار مانا جاتا ہے۔ قیصری بیگم نے اپنی زندگی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بسر کی اور کمیونٹی سروس میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی، خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے مسائل پر توجہ مرکوز رکھی۔
1928 میں، جب وہ جوان تھیں، تو انہیں حیدرآباد کی نمائندہ کے طور پر دہلی میں منعقدہ آل انڈیا ویمنز کانفرنس (All India Women's Conference) میں شرکت کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس تاریخی کانفرنس میں خواتین کے حقوق، کم عمری کی شادی، اور طلاق جیسے اہم مسائل پر بحث کی گئی۔
قیصری بیگم نے "کتابِ زندگی" کے نام سے ایک خود نوشت بھی تحریر کی، جو ان کی زندگی کے کاموں کو بیان کرتی ہے اور آج بھی بے شمار قارئین کے درمیان مقبول ہے۔ یہ خود نوشت قارئین کو قیصری بیگم کے دہلی اور حیدرآباد کے درمیان سفروں اور حج کے تجربات سے آشنا کرتی ہے، جبکہ گھریلو زندگی کے سوالات اور خدشات پر بھی خاص توجہ دیتی ہے۔
یہ تحریریں کبھی بھی اشاعت یا وسیع پیمانے پر پھیلانے کے ارادے سے نہیں لکھی گئیں، بلکہ ان کا بنیادی مقصد صرف ان کے خاندان کے افراد کے لیے تھا۔ کل 260 مضامین سات مختلف نوٹ بکس میں جمع کیے گئے، جنہیں قیصری بیگم کی بیٹی محمدی بیگم نے محفوظ رکھا۔
قیصری بیگم کے انتقال سے پہلے، ان کے بھائی کے پوتے شان الحق حقّی (1917-2005) نے ان کے مضامین کو ادبی جریدے "اردونامہ" میں شائع کیا، جس کی وجہ سے یہ تحریریں بہت مقبول ہوئیں۔
جب قیصری بیگم کو معلوم ہوا کہ ان کی ذاتی تحریریں ایک بڑی تعداد میں قارئین تک پہنچ چکی ہیں، تو وہ بے حد خوش ہوئیں۔ تاہم، یہ سلسلہ اچانک ختم ہو گیا جب "اردونامہ" 1976 میں بند کر دیا گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد قیصری بیگم کا انتقال ہو گیا۔
ان کے کام کو 2003 میں "کتابِ زندگی" کے طور پر شائع کیا گیا، جسے ان کی نواسی زہرہ مسرور احمد نے مکمل طور پر ایڈٹ کر کے شائع کیا.