aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب کی معروف ناول نگار اور افسانہ نگار بانو قدسیہ اپنے منفرد اسلوب کے اعتبار سے عظیم ادیبہ ہیں جنھوں نے سات عشروں تک اپنے قلم سے اہل ادب پر اپنی قابلیت کا سکہ جمایا۔انھیں اردو اور پنجابی زبان پر یکساں قدرت حاصل تھی یہی سبب ہے کہ ان کی تحریروں میں ان دونوں زبانوں کےالفاظ کا استعمال روانی سے ملتا ہے۔پیش نظر ان کے افسانوں کا مجموعہ" کچھ اور نہیں" ہے۔ جس میں نو افسانے شامل ہیں۔ کلو ،توجہ کی طالب، کرکل، مراجعت، بکری اور چرواہا وغیرہ میں بانو قدسیہ کا انفرادی اسلوب نمایاں ہے۔ بانو قدسیہ کی تحریریں عزم و ہمت ،جوش وولولہ کے ساتھ قارئین کو نئے جہان کی سیرکراتی دلچسپ ہیں۔
28 نومبر 1928ء اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار محترمہ بانو قدسیہ کی تاریخ پیدائش ہے۔ 1950ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور مشہور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ بعدازاں انہوں نے اپنے شوہر کی معیت میں ادبی پرچہ داستان گوجاری کیا۔ بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ ان کے ناولٹس میں ایک دن، شہر بے مثال، پروا،موم کی گلیاں اور چہار چمن کے نام شامل ہیں۔انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارۂ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے