aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
احمد فراز کی ہمہ رنگ شاعری بلا شبہ اردو کی شعری ادب کا نقطہ عروج ہے اور اس عہد کا مکمل منظر نامہ بھی ۔ احمد فراز اردو کے ایسے خوش بیان شاعر تھے جنہیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔ فراز اور ان کا کلام عالمی شہرت و مقبولیت کی جن بلندیوں کو چھو چکا ہے ، ان کے عہد کا کوئی اور شاعر وہاں تک نہیں پہونچ سکا۔ احمد فراز اپنے عہد کے ایک سچے فنکار تھے ، حق گوئی اور بیباکی ان کی فطرت کا خاصہ تھا۔ انہوں نے حکومت وقت کی بدعنوانیوں اور عوام کے ساتھ ناانصافیوں کے خلاف ہمیشہ کھل کر آوازہ حق بلند کی ۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت پر سخت تنقید کرنے پر انہیں گرفتار بھی کیا گیا ، وہ چھ سال تک کناڈا اور یورپ میں جلاوطنی کا عذاب جھیلتے رہے۔ فراز کی رومانی شاعری میں احتجاج اور مزاحمتی عنصر نے ان کے کلام کو عہد آفرین معنویت عطا کر دی ہے جو آنے والے ہر دور میں حق و انصاف کی آواز بن کر گونجتی رہے گی۔ زیر نطر کلیات احمد فرازمیں ان کے ۸مجموعوں کا اجتماع ہے جس میں جاناں جاناں، درد آشوب، تنہا تنہا، نایافت، نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ شامل ہے ۔اس کلیات میں گوکہ ان کا تمام کلام موجود نہیں ہے، لیکن پھر بھی ان کے ہر رنگ کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ جہاں ان کی شاعری میں رومانویت نظر آئیگی وہیں ان کی شاعری مظلوموں اور بے سہارا لوگوں کی آواز بن کر بھی ان کے زخموں پر مرحم رکھتی ہوئی بھی نظر آئیگی ۔ آج فراز کو نہ گانے والوں کی کمی ہے نہ ہی ان کو پڑھنے والوں کی کمی ہے اور یہ شاعر کا وہ طرہ امتیاز ہے جو اسے اور بھی مقبول بناتا ہے۔
احمد فراز ۱۲ جنوری ۱۹۳۱ کو کوہاٹ کے ایک معزز سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ احمد فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فراز ہوگیا۔ احمد فراز کی مادری زبان پشتو تھی لیکن ابتدا ہی سے فراز کو اردو لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا اور وقت کے ساتھ اردو زبان اور ادب میں ان کی یہ دلچسپی بڑھنے لگی۔ ان کے والد انہیں ریاضی اور سائنس کی تعلیم میں آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن احمد فراز کا فطری میلان ادب وشاعری کی طرف تھا۔ اس لئے انہوں نے پشاور کے ایڈورڈ کالج سے فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور باضابطہ ادب وشاعری کا مطالعہ کیا۔ احمد فراز نے اپنا کرئیر ریڈیو پاکستان پشاور میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر شروع کیا مگر بعد میں وہ پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ میں جب حکومت پاکستان نے اکیڈمی آف لیٹرس کے نام سے ملک کا اعلی ترین ادبی ادارہ قائم کیا تو احمد فراز اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے۔
فراز اپنے عہد کے سچے فنکار تھے حق گوئی اور بے باکی ان کی تخلیقی فطرت کا بنیادی عنصر تھی انہوں نے حکومت وقت اور اسٹیبلشمینٹ کی بدعنوانیوں کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کی پاداش میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ چھ سال تک کناڈا اور یورپ میں جلاوطنی کا عذاب سہتے رہے۔
فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج، مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے عشق، محبت اور محبوب سے جڑے ہوئے ایسے باریک احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی ہے جو ان سے پہلے تک ان چھوے تھے۔
فرازکی شخصیت سے جڑی ہوئی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے سب سے مقبول ترین شاعروں میں سے تھے۔ ہندوپاک کے مشاعروں میں جتنی محبتوں اور دلچسپی کے ساتھ فراز کو سنا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور شاعر کو سنا گیا ہو۔ فراز کی پزیرائی ہر سطح پر ہوئی انہیں بہت سے اعزازات وانعامات سے بھی نوازا گیا۔ ان کو ملنے والے چند اعزازات کے نام یہ ہیں۔ آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ (انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لیٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، ٹاٹا ایوارڈجمشید نگر (انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز۔
شعری مجموعے
جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ،تنہا تنہا، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک ، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفاپیشہ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets