aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ظرافت اور طنز سے بھرے اشعار کے لئے مشہور، مشرقی تہذیب کے رسیا اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کے مخالف ،اکبر الہ آبادی نے اپنی شاعری کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا۔ پھر طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب اختیار کیا اور اس میں اپنا وہ مقام بنا لیا کہ ان کی سنجیدہ شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق تھی اور وہ طنزیہ اور مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔ اکبر نے اپنی شاعری میں معاشرے کے ان رویوں اورخیالات پر طنزیہ و مزاحیہ انداز میں اظہار خیال کیا جن میں توازن نہیں تھا۔ انہوں نے اس پر زور دیا کہ ہمیں اپنے مذہب ، اپنی تہذیب اور قدروں کی بنیاد پر ترقی کرنی چاہیئے۔اکبر کی شاعری میں وہ بات زیادہ اہم ہوتی ہے جو شعر کے پس منظر میں ہوتی ہے اسی لئے ان کی شاعری کے اصل معنی تک رسائی مشکل سے ہو پاتی ہے۔ انکی شاعری زیادہ تر چھوٹے چھوٹے قطعوں ، نظموں ، رباعیوں اور مفرد اشعار پر مشتمل ہے۔ لیکن وہ اکثر ایسے شعر تراشتے ہیں جو نشتر کی طرح دلوں میں چبھتے ہیں۔ اکثر یہ اشعار اور قطعے دماغ میں ہیجان برپا کر دیتے ہیں اور ایک وسیع منظر سامنے لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب اکبر الہ آبادی کی کلیات ہے جس میں ان کا سنجیدہ و مزاحیہ تمام کلام موجود ہے، جو کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ زیر نطر کلیات پہلا حصہ ہے، جس میں اکبر کی جوانی یعنی دور اول کا کلام شامل ہے۔
اکبر الہ ابادی ہندوستانی زبان اور ہندوستانی تہذیب کے بڑے مضبوط اور دلیر شاعر تھے۔ ان کے کلام میں شمالی ہندوسان میں رہنے بسنے والوں کی تمام ذہنی و اخلاقی قدروں ، تہذیبی کارناموں ، سیاسی تحریکوں ،اور حکومتی کارروائیوں کے بھرپور سراغ ملتے ہیں۔ اکبر کی شاعری زمانہ اور زندگی کا آئینہ ہے۔ ان کا انداز بیان کہیں کہیں قلندرانہ، کہیں شاعرانہ، کہیں تراش خراش کے ساتھ، کہیں سادہ، کہیں روایتی اور کہیں جدت پسندانہ اور انقلابی ہے۔ اکبر روایتی ہوتے ہوئے بھی باغی تھے اور باغی ہوتے ہوئے بھی اصلاحی۔ وہ شاعر تھے ،شور نہیں مچاتے تھے۔ خواص اور عوام دونوں ان کو اپنا شاعر سمجھتے تھے۔ان کی شاعری دونوں کے ذوق کو سیراب کرتی ہے۔ان کا کلام مکمل اردو کا کلام ہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق میر تقی میر کے بعد اکبر الہ ابادی نے اپنے کلام میں اردو زبان کے سب سے زیادہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اکبر شاعر پہلے تھے کچھ اور بعد میں۔ انھوں نے اپنے عہد میں نہ مولویوں کو منہ لگایا نہ مغرب کی برکات سے مرعوب ہوئے، نہ انگریز حاکموں کی پروا کی اور نہ لیڈروں کو خاطر میں لائے۔ اس عہد میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس نے انگریز کا ملازم ہوتے ہوئے اس کی ایسی خبر لی ہو جیسی اکبر نے لی۔
اکبر کی شاعری کو محض مزاحیہ شاعری کے کھاتتے میں ڈال دینا اکبر کے ساتھ ہی نہیں اردو شاعری کے ساتھ بھی نا انصافی ہے۔ غزل قطعہ، رباعی اور نظموں کی شکل میں اکبر نے جتنا عمدہ کلام چھوڑا ویسا جدید دور کے کسی شاعر کے ہاں موجود نہیں ۔انھوں نے غزل کی روائتی صنف میں انقلابی تجربے کئے۔وہ ہیئت کے تجربے قبول کرنے میں اتنے آگے نکل گئے کہ ایک ہی نظم میں مختلف بحور اور اصناف کو یکجا کر دیا۔انھوں نے بلینک ورس (معری نظم) میں بھی طبع آزمائی کی اور اپنے عہد کے دوسرے شاعروں سے بہتر آزاد نظمیں لکھیں۔ اس سلسلہ میں ان کی نظم "ایک کیڑا " معرکہ کی چیز ہے۔ان کی نظموں میں تنوع اور فنکاری کی جو آمیزش ہے وہ اقبال کے سوا اردو کے کسی شاعر کے ہاں نہیں ملتی۔ اکبر پہلے شاعر ہیں جنھوں نے زبان کے عام الفاظ اونٹ،گاے،شیخ ،مرزا، انجن وغیرہ کا علامتی استعمال کیا اور اردو میں علامتی شاعری کی راہ ہموار کی۔ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لئے ان کے کلام میں خوش فکری،بذلہ سنجی،زبان و خیال پر قدرت،صنائع لفظی و معنوی سبھی کچھ ہے۔غور و فکر کرنے والوں کے لئے انھوں نے معاشرت اور تمدّن کی پیچیدگیوں اور فلسفہ ء جسم و روح کی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے اور سیاست دانوں کوتو انھوں نے ان کا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ اکبر پہلے شاعر ہیں جن کے ہاں عورت کبھی نازنینان فرنگ اورکبھی تھیٹر والیوں کی شکل میں ،اپنے پورے وجود کے ساتھ خود کو دکھاتی ہوئی نظر آتی ہے اور جو اردو شاعری کی روائتی محبوباؤن سے بالکل مختلف ہے۔ عشق و رومان کے مقابلہ میں بصری تلذّذ کا جو انداز اکبر کے یہاں ملتا ہے وہ اردو شاعری میں انوکھی چیز اور اپنی مثال آپ ہے۔ اکبر اردو کے پہلے شاعر ہیں جس کا دل تو بہتوں پر آتا ہے (مرا جس پارسی لیڈی پہ دل آیا ہے اے اکبر *** جو سچ پوچھو تو حسن بمبئی ہے اسکی صورت سے) لیکن جس کی اصل محبوبہ اک شادی شدہ عورت ہے جو اسکی اپنی بیوی ہے (اکبر ڈرے نہیں کبھی دشمن کی فوج سے *** لیکن شہید ہو گئے بیگم کی نوج سے) ۔اکبر کے "فرسٹ" کی فہرست کافی طویل ہے۔
سید اکبر حسین الہ ابادی 16 نومبر 1846ء کو ضلع الہ اباد کے قصبہ بارہ میں پیدا ہوئے۔والد تفضل حسین نائب تحصیلدار تھے۔ اکبر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔آٹھ ،نو برس کی عمر میں انھوں نے فارسی اور عربی کی درسی کتابیں پڑھ لیں۔پھر ان کا داخلہ مشن اسکول میں کرایا گیا۔لیکن گھر کے مالی حالات اچھے نہ پہونے کی وجہ سے ان کو اسکول چھوڑ کر پندرہ سال کی ہی عمر میں ملازمت تلاش کرنا پڑی۔ اسی کم عمری میں ان کی شادی بھی خدیجہ خاتون نام کی اک دیہاتی لڑکی سے ہو گئی لیکن بیوی ان کو پسند نہیں آئیں۔ اسی عمر میں انھوں نے الہ اباد کی طوائفوں کے کوٹھون کے چکر لگانے شروع کر دئے۔ الہ اباد کی شاید ہی کوئی خوبصورت اور خوش گلو طوائف ہو جس کے پاس وہ نہ گئے ہوں، انھوں نے اک طوائف بوٹا جان سے شادی بھی کر لی لیکن اس کا جلد ہی انتقال ہو گیا جس کا اکبر کو صدمہ رہا۔۔ اکبر نے کچھ دنوں ریلوے کے اک ٹھیکیدار کے پاس 20 روپے ماہوار پر ملازمت کی پھر کچھ دنوں بعد وہ کام ختم ہو گیا۔ اسی زمانہ میں انھوں نے انگریزی میں کچھ مہارت حاصل کی اور 1867ء میں وکالت کا امتحان پاس کر لیا۔انھوں نے تین سال تک وکالت کی جس کے بعد وہ ھائی کورٹ کے مسل خواں بن گئے۔ اس عرصہ میں انھوں نے ججوں وکیلوں اور عدالت کی کارروائیوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھا۔ 1873 میں انھوں نے ہائی کورٹ کی وکالت کا امتحان پاس کیا۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان کا تقرر منصف کے عہدہ پر ہو گیا۔ اسی زمانہ میں ان کو شیعہ گھرانے کی ایک لڑکی فاطمہ صغری پسند آ گئی جس سے انھوں نے شادی کر لی اور پہلی بیوی کو الگ کر دیا لیکن اس کو معمولی خرچ دیتے رہے۔ پہلی بیوی سے ان کے دو بیٹے تھے لیکن ان کی تعلیم و تربیت کی کوئی پروا نہیں کی۔ اور انھوں نے بڑی عسرت میں زندگی گزاری۔ ایک بیٹا تو باپ سے ملنے کی آرزو لئے دنیا سے چلا گیا لیکن وہ اسے دیکھنے نہیں گئے۔1888ء میں انھوں نے سب آردینیٹ جج اور پھر خفیفہ عدالت کے جج کے عہدہ پر رقی پائی۔اور علی گڑھ سمیت مخلف مقامات پر ان کے تبادلے ہوتے رہے۔ 1905ء میں وہ سیشن ججج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور باقی زندگی الہ اباد میں گزاری۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انکی دوسری بیوی زیادہ دن زندہ نہیں رہیں ۔اکبر اس صدمہ سے سنبھل نہیں پاے تھے کہ دوسرے بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والا ان کا جواں سال بیٹا،جس سے ان کو بہت محبت تھی، چل بسا۔ ان صدمات نے ان کو پوری طرح توڑ کر رکھ دیا اور وہ مسلسل بیمار رہنے لگے۔فاطمہ صغری سے اپنے دوسرے بیٹے عشرت حسین کو انھوں نے لندن بھیج کر تعلیم دلائی۔ پہلی بیوی خدیجہ خاتون 1920ء تک زندہ رہیں لیکن ان کو "ؑعشرت منزل" میں قدم رکھنے کی کبھی اجازت نہیں ملی۔ 1907 میں حکومت نے اکبر کو "خان بہادر" کا خطاب دیا اور ان کو الہ باد یونیورٹی کا فیلو بھی بنایا گیا۔ اکبر نے 9 ستمبر 1921ء میں وفات پائی۔
اکبر کو اردو شاعری میں طنز ظرافت کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ان سے پہلے اردو شاعری میں طنز و مزاح ،ریختی یا ہجویات کے سوا،کوئی اہمیت اور تسلسل نہیں حاصل کر سکا تھا۔اکبر نے تیزی سے بدلے ہوے زمانہ کو ہوشیار کرنے کے لئے طنز و مزاح کی نئی وضع اختیار کی۔اکبر کی ظرافت کا مقصد تفریح نہیں بلکہ اس میں اک خاص مقصد ہے۔اکبر کی دور اندیش نگاہوں نے دیکھا کہ دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے اور اس وقت جو طبقہ پیدا ہو رہا ہے اس کو مغرب پرستی بہاے لئے جا رہی ہے اور لوگ اپنی ہندوستانی اقدار کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کو ملک و قوم کی خدمت کی طرف موڑتے ہوئے اک نیا انداز اختیار کیا جس میں بظاہر تمسخر اورظرافت ہے لیکن اس کے باطن میں نصیحت اور تنقید ہے۔وہ اپنی شاعری کو جس رخ پر اور جس مقصد کے لئے لے کر چل رہے تھے اس کے لئے ضروری تھا کہ لب و لہجہ نیا ،دلکش اور دلپزیر ہو۔یہ اک ایسے شخص کا کلام ہے جس کے چہرہ پر شگفتگی اور تمسخر کے آثار ہیں مگر آواز میں ایسی آنچ ہے جو ظرافت کو پگھلا کر ،دلنشیں ہونے تک، متانت کا درجہ عطا کر دیتی ہے۔ اکبر کے طنز کا ہدف کوئی فرد خاص نہیں ہوتا ۔ہر شخص اولا" یہی سمجھتا ہے کہ طنز کسی اور کی طرف ہے لیکن ہنس چکنے کے بعد زرا غور کرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اکبر نے ہم سبھوں کو مخاطب کیا تھا۔اور جس کو ہم مذاق سمجھ رہے تھے اس کی تہہ میں تنقید و نصیحت ہے۔بات کو اس نتیجہ تک پہنچانے میں اکبر نے بڑی صناعی سے کام لیا ہے۔ اکبر نے اردو شاعری کے تشنہء اظہار گوشوں کو پُر کیا ، اپنے عہد کے تقاضوں کو پورا کیا اور مستقبل کے شاعروں کے لئے نئی راہیں ہموار کیں۔ان کی شاعری کی اہمیت ان کی شاعری کی خوبیوں سے بڑھ کر ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets