aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اصغر گونڈوی اردو کے ان گنے چنے شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے حسن و عشق کی شاعری کو محض ہجر کی نالہ و زاری، جسم کی لطافتوں اور لذتوں کے بیان یا اس سوز و گداز سے جو عشقیہ شاعری کا لازمہ سمجھا جاتا ہے، دور رکھ کر اک نشاطیہ اور طربیہ لب و لہجہ دیا جو بالکل نیا تھا اور جو پڑھنے والے کو اداس یا غمگین کرنے کی بجائے ایک مسرت افزا کیفیت سے دوچار کرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس میں لکھنؤی شاعری کےاوچھے پن یا تہذیب سے گری ہوئی کسی بات کا شائبہ تک نہیں۔ اصغر کی شاعری اصلاً تصوف کی شاعری ہونے کے باوجود دوسرے صوفی شاعروں مثلاً درد، سراج اورنگ آبادی یا امیر مینائی کی شاعری سے بہت مختلف ہے اور وہ اس طرح کہ ان کی شاعری اس شخص کو بھی جسے تصوف یا صوفیانہ مضامین سے کوئی دلچسپی نہ ہو، سرشار اور محظوظ کرتی ہے۔ ان کا پیرایہ بیان دلکش، رنگین اور مسرت افزا ہے اور ان کی یہی خصوصیت ان کو دوسرے صوفی شعراء سے ممتا زکرتی ہے۔ اصغر نے بہت سے دوسرے شعراء کی طرح نال کٹتے ہی "مطلع عرض ہے" نہیں کہا بلکہ خاصی پختہ عمر میں شاعری شروع کی اور اس کو دوسروں تک پہنچانے یا مقبول بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ان کا چلتا پھرتا اشتہار بس جگر مراد آبادی تھے جو ان سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کی غزلیں جیب میں لئے پھرتے تھے اور ایک ایک کو سناتے تھے۔ اصغر کبھی پیشہ ور یا پُرگو شاعر نہیں رہے اور تبھی شعر کہتے تھے جب شعر خود کو ان سے کہلوا لے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جو بھی کلام ہے وہ سارے کا سارا درجۂ اوّل کا، رطب و یابس سے پاک اور نفاست سے لبریز ہے۔
اصغر کا اصل نام اصغر حسین تھا وہ 1884ء میں گورکھپور میں پیدا ہوئے ان کے والد تفضل حسنس بسلسلہ ملازمت گونڈہ میں رہتے تھے جہاں وہ صدر قانون گو تھے اور عربی، فارسی کی اچھی استعداد رکھتے تھے۔ چونکہ گونڈہ میں اصغر نے مستقل رہائش اختیار کر لی تھی اسی لئے اصغر گونڈوی کہلاتے ہیں۔ اصغر کی ابتدائی تعلیم دستور کے مطابق مکتب سے شروع ہوئی۔ اور ارد و عربی میں انہوں نے خاصی مہارت حاصل کر لی۔ اس کے بعد انگریزی تعلیم کے لئے گورنمنٹ اسکول گونڈہ میں داخلہ لیا اور وہیں سے 1904 میں مڈل(آٹھویں جماعت) کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران انہوں نے عربی اور فارسی کی کتابیں اپنے والد سے گھر پر پڑھیں۔ 1906 میں والد کی ایماء سے انگریزی تعلیم کا سلسلہ ختم کر دیا تاکہ ملازمت حاصل کر سکیں۔ اس زمانہ میں اتنی انگریزی تعلیم ملازمت کے لئے کافی سمجھی جاتی تھی۔ اسی عرصہ میں اصغر کی ملاقات ریلوے ہیڈ کوارٹر کے دفتر میں ایک ہیڈ کلرک بابو راج بہادر کائستھ سے ہوئی۔ یہ صاحب خاصے تیز طرار، رنگین مزاج اور انگریز دانی کی بدولت انگریز حکام تک رسوخ رکھتے تھے۔ وہ اصغر کی ذہانت، برجستہ گفتگو اور بذلہ سنجی سے متاثر ہوئے اور حکام سے کہہ کر انہیں بیس روپے ماہوار پر ریلوے میں ٹائم کیپر رکھوا دیا۔ اصغر نے اپنی ذاتی کوششوں سے اردو فارسی میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی اور ایک اینگلو انڈین کی مدد سے انگریزی ادبیات سے بھی آشنا ہو گئے تھے۔ یہ تعلیم و صحبت آگے چل کر "ہندوستانی اکیڈمی" کے سہ ماہی رسالہ "ہندوستانی" کے شعبہ اردو کے مدیر کی حیثیت سے ان کے تقرر میں کام آئی۔ اصغر ٹائم کیپری کی ملازمت کے لئے بابو راج بہادر کے بہت ممنون تھے اور انہیں اپنا محسن اور شفیق سمجھ کر ان سے گھل مل گئے تھے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں شراب، افیم اور بالا خانوں کی سیر کا چسکا لگ گیا۔ یہ سلسلہ پانچ سال تک چلا پھر اچانک ان کی کایا پلٹی اور تمام بری عادتوں، راج بہادر کی رفاقت اور ٹائم کیپر کی نوکری کو لات مار کر گھر میں بیٹھ رہے۔ کوٹھوں کی مذکورہ حاضریوں کے دوران چھٹّن نامی اک طوائف اصغر پر لٹو ہو گئی۔ یہ ایک معمولی شکل و صورت کی نیک دل سادہ مزاج اور خاموش طبیعت عورت تھی جس کی طرف اصغر بھی مائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ وہ اپنے شراب نوشی کے زمانہ میں نشہ میں چُور چھٹن کے گھر پہنچتے اور امام غزالی کے فلسفہ پر اس کے ساتھ بحث کرتے تھے۔ تائب ہونے کے بعد انہوں نے اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا اور اس کے ساتھ ان کی دلچسپی بھی لمحاتی تھی لیکن وہ اصغر کے لئے سنجیدہ تھی اور آسانی سے اصغر کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں تھی۔ جب اصغر تائب ہو گئے اور اس کے گھر آنا جانا بند کر دیا تو وہ اس مسجد کے باہر جہاں اصغر نماز پڑھتے تھے، آ کر بیٹھ جاتی تھی تا کہ ان کو دیکھ سکے۔ اصغر نے اپنا پیچھا چڑ انے کے لئے یہ شرط رکھی کہ اگر وہ اپنی موجودہ زندگی سے معہ خاندان تائب ہو جائے تو وہ اس سے شادی کر سکتے ہیں۔ وہ اس پر بھی راضی ہو گئی۔ اس نیک عورت نے زندگی بھر اصغر کی خدمت کی۔ اس سے پہلے اصغر کی شادی گونڈہ کے ہی قاضی صاحبان کے خاندان میں ہو چکی تھی اس سے ان کی دو لڑکیاں بھی تھیں لیکن اصغر کی اپنی پہلی بیوی سے نہیں بنتی تھی اور وہ اصغر کے والد کے ساتھ رہتی تھی۔ جوانی کی بے راہ روی کے بعد اصغر نے محسوس کیا کہ جسم کی آسودگی روح کی نا آسودگی کو نا قابلِ برداشت حد تک بڑھا رہی ہے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مرشد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ جا تو رہے تھے شیخ محمد عمر سے ملنے لیکن راستہ میں کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ قاضی عبد الغنی منگلوری کے مرید ہو گئے جس کے بعد ان کی زندگی ہی بدل گئی "اب نہ زماں نہ وہ مکاں،اب وہ زمیں نہ آسماں*تم نے جہاں بدل دیا آ کے مری نگاہ میں"۔ اب ان کی شخصیت نے نیا جامہ پہنا اور آخری عمر تک وہ ہر حیثیت سے اور ہر معاملہ میں صاحب ذوق اور صاحبِ حال رہے۔ وہ بہرحال روایتی صوفی یا زاہد خشک نہیں بلکہ ہنس مکھ اور بذلہ سنج تھے۔
اصغر کے حالات زندگی جگر مراد آبادی کے تذکرہ کے بغیر ادھورے رہیں گے۔ جگر سے اصغر کی ملاقات گونڈہ کے مشاعروں میں ہوئی اور رفتہ رفتہ تعلقات اتنے بڑھے کہ جگر ان کے گھر کے ایک فرد بن گئے۔ جن دنوں جگر شدید ذہنی اور جذباتی پریشانیوں میں مبتلا تھے، اصغر نے ان کی شادی اپنی سالی (چھٹن کی چھوٹی بہن) سے کرا دی۔ وہ جگر کی رندی اور سرمستی کے باوجود جگر کی قدر کرتی تھی۔ جگر ان دنوں ایک چشمہ ساز کمپنی کے گشتی نمائندہ تھے۔ انہوں نے اصغر کے ساتھ مل کر گونڈہ میں چشموں کا اپنا کاروبار شروع کیا۔ لیکن جگر لا ابالی آدمی تھے۔ بیوی کو چھوڑ کر مہینوں کے لئے غائب ہو جاتے تھے۔ چھٹن کا اصرار تھا کہ اصغر نسیم سے شادی کر لیں۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ جگر نسیم کو اور اصغر چھٹن کو طلاق دیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اصغر نے نسیم سے شادی کر لی۔ چھٹن بدستور ان کے گھر میں رہی اور ان کی خدمت کرتی رہی۔ وہ اصغر سے عمر میں بڑی بھی تھی۔ (اصغرکی موت کے بعد جگر نے دوبارہ نسیم سے شادی کی)۔ اصغر کے مزاج میں نفاست بہت تھی وہ عمدہ چیزوں کے شوقین تھے، نازک مزاجی یا تکبر ان کو چھو بھی نہیں گئے تھے۔ ہر شخص کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ مذہبی ہونے کے باوجود کٹّر پن بالکل نہیں تھا، ان کے ملنے والوں میں اہل علم، اوباش، قلندر، طالب علم، کاروباری، مہذب اور غیر مہذب، رند، غرض ہر قسم کے لوگ شامل تھے لیکن سبھی ان کی محفل میں آ کر مہذب ہو جاتے تھے۔ ان سے ملنے والے ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ مزاج میں ایک طرح کا ٹھہراؤ تھا جو ان کے کلام میں بھی ہے۔
اصغر کی صحافتی زندگی 1912ء میں شروع ہوئی جب انہوں نے فیض آباد سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار "قیصر ہند" میں کام شروع کیا بعد میں یہ اخبار پیام ہند کے نام سے شائع ہونے لگا۔ اصغر کا ابتدائی کلام ان ہی اخبارات میں شائع ہوا۔ 1926ء میں لاہور میں "اردو مرکز" قائم ہوا جس کے لئے اصغر کو علامہ تاجور کی ایماء پر گونڈہ سے بلایا گیا۔ اصغر نے ڈیڑھ دو سال وہاں کام کیا پھر ادارہ کا مستقبل تاریک دیکھ کر گونڈہ واپس آ گئے۔ ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد سے اصغر کا تعلق سر تیج بہادر سپرو کے توسط سے ہوا جو اصغر کے مدّاح تھے۔ اصغر 1930 سے 1936 یعنی اپنی موت تک اکیڈمی سے وابستہ رہے۔ اصغر نے شاعری کو کبھی پیشہ نہیں بنایا بلکہ وہ دوسروں کو شاعری سے طرح طرح سے روکتے تھے۔ ان کا خیال تھا مشاعروں میں وہی شعر اٹھتا ہے جو سب کی سمجھ میں آ جائے اور ایسا شعر عموماًسطحی ہوتا ہے۔ وہ اپنی غزلیں بھی خود پڑھنے کے بجائے دوسروں سے پڑھواتے تھے۔ اصغر بلڈ پریشر کے مریض تھے ان پر 1934 میں فالج کا حملہ ہوا جس سے وہ جلد صحتیاب ہو گئے لیکن 1936 میں اسی مرض کے مزید حملے جان لیوا ثابت ہوئے۔
اصغر کی غزل میں حسرت کی سادگی پسندانہ شیرینی، فانی کی بالغ نظری، لطافت اور موسیقیت اور تصوف کی چاشنی گھلی ملی نظر آتی ہے۔ ان کا کلام پڑھنے والا فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس میں خیال یا مضمون کی خوبی زیادہ ہے یا لطافت اور حسن بیان کی۔ ان کے یہاں شاعری کا حاصل یہی ہے کہ پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو عرفانی نغموں سے بھر دیا جائے۔ اور اس کی روح کو سرشار کیا جائے۔ ان کی شاعری میں ہوس کا کوئی شائبہ نہیں، ہر جگہ حسن تخیل، حسن نظر اورحسنِ ادا کی جلوہ نمائی ہے۔ جوش اور سرمستی اصغر کے تغزل کی جان ہے۔ عشقیہ اشعار میں وہ تہذیب کا دامن نہیں چھوڑتے اور معمولی خیال کو بھی دلکش بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی شاعری کا لب و لہجہ نشاطیہ اور طربیہ اور رقص معنی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ان کے کلام میں شدّت جذبات کے باوجود ایک طرح کا ٹھہراؤ اور ضبط ہے۔ ان کا تصوف مولویت کی بے روح فقہ پرستی کے خلاف ایک شدید ردّعمل ہے ان کی نگاہ میں قوّت، ضبط کا نام ہے نہ کہ انتشار کا۔ اردو غزل میں اصغر نشاطیہ شاعری کی بہترین مثال ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets