aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عزیز حامد مدنی کی کلیات کا آپ مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے ایک ماہر لسانیات تھے۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ مدنی کی شاعری کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے لایعنی ، تخریبی ، کھردرے انسانی تجربات کو بھی تخلیقی جمالیات سے ہم کنار کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ یہ کتاب چار حصوں میں منقسم ہے ۔ پہلے حصے کا عنوان " چشم نگراں " ہے۔ اس میں مختلف نظمیں ، غزلیں اور قطعات کے نمونے پیش کیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ مدنی نہ صرف قادر الکلام شاعر تھے بلکہ اپنے شعری کلام میں انسانی مشاہدات کا تجزیہ بھی باکمال طریقے پر کرنے کا ہنر رکھتے تھے۔ دوسرا حصہ " دشت امکان " کے عنوان سے ہے۔ اس میں بیسویں صدی میں سخنوری کے انداز و فکر کا اظہار کرتے ہوئے اشعار پائے جاتے ہیں ۔ یہ اشعار ۱۹۶۴ میں شائع ہو چکے تھے۔ تیسرے حصے کا عنوان "نخل گماں " ہے۔ اس میں مختلف اصناف کی نظمیں ، غزلیں شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ۱۹۸۳ میں شائع ہوا تھا۔ یہ حصہ ایک معاشرے کو دوسرے سے منفرد کرنے کے فکر کو اجاگر کرتا ہے اور چوتھا حصہ " گل آدم" ہے جس میں انسانیت کے کمال کو بتایا گیا ہے۔
Aziz Hamid Madani was a renowned poet‚ critic and translator. Madni was born on June 15, 1922, in Raipur. His father Mohammad Hamid Saqi, was Shibli Nomani’s student and Maulana Muhammad Ali Jauhar’s classmate and a member of his cricket team. Madni migrated to Pakistan in 1948 and settled in Karachi. After doing his Master’s in English, he had brief stints in teaching and journalism and later joined Radio Pakistan as programme executive. His collections of poetry are Chashm-e-Nigaraan (1962)‚ Dasht-e-Imkaan (1964) and Nakhl-e-Gumaan (1983). ‘Jadeed Urdu Shaeri’ is a two-volume critical survey of Urdu poetry, published by Anjuman Taraqqi-e-Urdu. His unpublished works include translations of Shakespeare’s ‘Othello’ and ‘Antony and Cleopatra’ and most of his French translations into Urdu remain unpublished. Aziz Hamid Madni died in Karachi on April 23, 1991.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free