aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جعفر علی خان حسرت نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔مگر غزل گوئی ان کا اصل میدان ہے۔ وہ نہ صرف فارسی بل کہ عربی پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ حسرت کی شاعری میں متنوع رنگ نمایاں ہیں۔ زیرنظر کلیات میں قصائد،مخمسات، ترکیب بند، ترجیع بندی،مثنویوں کے علاوہ دیوان مخمسات،دیوان رباعیات اور دیوان غزلیات شامل ہیں۔جس کو پہلے سے مرتب شدہ" کلیات حسرت " کے نسخوں کی روشنی میں نئے سرے سے مرتب کیا گیا ہے۔
نام مرزا جعفر علی، حسرتؔ تخلص۔ولادت تقریبا35۔1734،دہلی۔شروع میں اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر عطاری کا پیشہ اختیار کیا۔فارسی میں مرزا فاخر مکین اور اردو میں رائے سرپ سکھ دیوانہ کے شاگرد تھے۔تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔مگر غزل گوئی ان کا اصل میدان ہے۔جب شاہ عالم ثانی تخت پر بیٹھے تو حسرت ان کے دامن دولت سے وابستہ ہوگئے۔غلام قادر روہیلہ نے جب بادشاہ کی آنکھیں نکالیں اور دہلی میں افراتفری مچی تو حسرتؔ شجاع الدولہ کے عہد حکومت میں فیض آباد منتقل ہوگئے۔شجاع الدولہ کے بعد آصف الدولہ نواب ہوئے اور ان کے عہد میں دارالسلطنت لکھنؤ قرار پایا۔ حسرت نے بھی مستقل طور پر لکھنؤ سکونت اختیار کرلی۔حسرتؔ کے زندگی کے آخری ایام لکھنؤ میں گزرے۔ آخری عمر میں گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔ جرأت اور خواجہ حسن ان کے مشہور شاگرد تھے92۔1791 میں لکھنؤ میں وفات پاگئے۔ تصانیف میں ایک کلیات جس میں مثنوی واسوخت،مسدس، قصیدے رباعیاں اور دو دیوان غزلوں کے ہیں اور دوسری مثنوی’’طوطی نامہ‘‘ ہے ۔وہ نہ صرف فارسی بل کہ عربی پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ بقول نیاز فتح پوری: حسرت کی کھل کھیلنے والی شاعری میں بھی ہم کو خالص جذباتی رنگ کے اشعار بڑے پاکیزہ مل جاتے ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets