Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : جگر مراد آبادی

ایڈیٹر : نواز چودھری

ناشر : نواز چودھری

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : کلیات

صفحات : 360

معاون : سمن مشرا

کلیات جگر
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

بیسویں صدی کے نصف اول میں مقبول ہونے والے ایک بڑے شاعر حضرت جگر مراد آبادی ہیں۔ آپ کو رئیس المتغزلین اور شہنشاہِ غزل بھی کہا جاتا ہے۔جگر کی شاعری کا موضوع عشق و محبت اور حسن ہے۔ان کی شاعری ان کی رنگارنگ شخصیت،رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی آمیزش کا نتیجہ ہے۔جگر ایسے شاعر ہیں جن کی غزل قدیم تغزّل اور بیسویں صدی کے وسط و اواخر کی رنگین نگاری کا خوبصورت امتزاج ہے۔ جگر نے قدیم اور جدید تمام شعراء کی فکر سے استفادہ کیا۔ان کا کلام بے ساختگی اور آمد سے معمور ہے سرمستی اور دلفگاری،تاثر اور سرشاری ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ان کی زندگی اور ان کی شاعری میں مکمل مطابقت ہے محاکات کے اعتبار سے اکثر مقامات ایسے ملیں گے کہ مصور کے تمام کمالات ان کی تصویر کشی کے سامنے ہیچ نظر آئیں گے۔جگر حسن و عشق کو مساویانہ درجہ دیتے ہیں ان کے نزدیک حسن اور عشق دونوں ایک دوسرے کا عکس ہیں۔جگر نے تغزل کو معراج کمال تک پہنچا دیا اور یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔وہ اپنے زمانے کے پہلے اردو شاعر تھے جنھیں پدم بھوشن کا خطاب ملا تھا، زیر نظر کتاب جگر مرادآبادی کا کلیات ہے جسے نواز چودھری نے بڑے سلیقے سے ترتیب دیاہے،اس کلیات میں "آتش گل"شعلہ طور"لمعات طور،نظمیں ،گیتیں اور جگر کا غیر مطبوعہ کلام شامل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کلیات کے شروع میں رشید صاحب کے دو مضامین کے علاوہ مالک رام کا بھی ایک مضمون شامل ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود کی رائے اپنے کلام کے سلسلے میں شامل ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

جگر مرادآبادی کو اپنے عہد میں جو شہرت اور مقبولیت ملی اس کی کوئی مثال ملنی مشکل ہے۔ ان کی یہ مقبولیت ان کی رنگارنگ شخصیت، رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی بدولت تھی جب ان کی شاعری ارتقائی منازل طے کرکے منظر عام پر آئی تو سارے ملک کی شاعری کا رنگ ہی بدل گیا اور بہت سے شعراء نے نہ صرف ان کے رنگِ کلام کی بلکہ ترنّم کی بھی نقل کرنے کی کوشش کی اور جب جگر اپنا انداز ترنم بدل دیتے تو اس کی بھی نقل ہونے لگتی۔ بہرحال دوسروں سے ان کے شعری انداز یا لحن کی نقل تو ممکن تھی لیکن ان کی شخصیت کی نقل محال تھی۔ جگر کی شاعری حقیقی معنوں میں ان کی شخصیت کا آئینہ تھی۔ اس لئے جگر، جگر رہے، ان کے ہمعصروں میں یا بعد میں بھی کوئی ان کے رنگ کو نہیں پا سکا۔


جگر مراد آبادی کا نام علی سکندر تھا اور وہ 1890ء میں مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ جگر کو شاعری ورثہ میں ملی تھی، ان کے والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے اور شہر کے با عزت لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ جگر کے مورث اعلی محمد سمیع دہلی سے تعلق رکھتے تھے اور شاہجہاں کے دربار سے وابستہ تھے لیکن شاہی عتاب کے نتیجہ میں مرادآباد میں آ کر بس گئے تھے۔ جگر کے والد، خواجہ وزیر لکھنؤی کے شاگرد تھے، ان کا مجموعۂ کلام باغ نظر کے نام سے ملتا ہے۔ جگر کی ابتدائی تعلیم گھر پر اور پھر مکتب میں ہوئی مشرقی علوم کے حصول کے بعد انگریزی تعلیم کے لئے انہیں چچا کے پاس لکھنؤ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ان کو انگریزی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نویں جماعت میں دو سال فیل ہوئے تھے۔ اسی عرصہ میں والد کا بھی انتقال ہو گیا تھا اور جگر کو واپس مرادآباد آنا پڑا تھا۔ جگر کو زمانۂ تعلیم سے ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا لیکن طالب علمی کے زمانہ میں وہ اسے منظر عام پر نہیں لائے۔ جگر آزاد طبیعت کے مالک تھے اور بیحد حسن پرست تھے۔ تعلیم ترک کرنے کے بعد ان کے چچا نے انہیں مرادآباد میں ہی کسی محکمہ میں ملازمت دلا دی تھی اور ان کے گھر کے پاس ہی ان کے چچا کے ایک تحصیلدار دوست رہتے تھے جنہوں نے اک طوائف سے شادی کر رکھی تھی۔ جگر کا ان یہاں آنا جانا تھا۔ اس وقت جگر کی عمر 15-16 سال تھی اور اسی عمر میں تحصیلدار صاحب کی بیوی سے عشق کرنے لگے اور انہیں ایک محبت نامہ تھما دیا جو انہوں نے تحیلد ار صاحب کےحوالہ کر دیا اور تحصیلدار صاحب نے وہ جگر کے چچا کو بھیج دیا۔ چچا کو جب ان کی حرکت کی خبر ملی تو انہوں نے جگر کو لکھا کہ وہ ان کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ گھبراہٹ میں جگر نے بڑی مقدار میں بھانگ کھا لی۔ بڑی مشکل سے ان کی جان بچائی گئی جس کے بعد وہ مرادآباد سے فرار ہو گئے اور کبھی چچا کو شکل نہیں دکھائی۔ کچھ ہی عرصہ بعد چچا کا انتقال ہو گیا تھا۔

مرادآباد سے بھاگ کر جگر آگرہ پہنچے اور وہاں اک چشمہ ساز کمپنی کے سفری ایجنٹ بن گئے۔ اس کام میں جگر کو جگہ جگہ گھوم کر آرڈر لانے ہوتے تھے۔ شراب کی لت وہ زمانہ طالب علمی ہی میں لگا چکے تھے۔ ان دوروں میں شاعری اور شراب ان کی ہمسفر رہتی تھی۔ آگرہ میں انہوں نے وحیدن نام کی ایک لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ وہ اسے لے کر اپنی ماں کے پاس مرادآباد آ گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد ماں کا انتقال ہو گیا۔ جگر کے یہاں وحیدن کے ایک رشتہ کے بھائی کا آنا جانا تھا اور حالات کچھ ایسے بنے کہ جگر کو وحیدن کے چال چلن پر شک پیدا ہوا اور یہ بات اتنی بڑھی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وحیدن نے چھ ماہ ان کا انتظار کیا پھراسی شخص سے شادی کر لی۔ جگر بے سرو سامان اور بے یار و مددگار تھے۔ اور اس نئی ذہنی و جذباتی اذیت کا مداوا ان کی شراب نوشی بھی نہیں کر پا رہی تھی۔ اسی عرصہ میں وہ گھومتے گھامتے گونڈہ پہنچے جہاں ان کی اصغر گونڈوی سے ملاقات ہوئی۔ اصغر نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا، ان کو سنبھالا، ان کی دلدہی کی اور اپنی سالی نسیم سے ان کا نکاح کر دیا۔ اور جگر ان کے گھر کے اک فرد بن گئے۔ مگر سفر، شاعری اور شراب نوشی نے جگر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ ازدواجی زندگی کی بیڑی بھی ان کو باندھ کر نہیں رکھ سکی۔ 

جگہ جگہ سفر کی وجہ سے جگر مختلف مقامات پر بطور شاعر متعارف ہو چکے تھے۔ شاعری کے ارتقائی مرحلہ میں بھی جگراس طرح کے اچھے شعر کہہ دیے تھے۔ "ہاں ٹھیس نہ لگ جائے اے درد غم فرقت*دل آئینہ خانہ ہے آئینہ جمالوں کا" اور "آہ رو لینے سے بھی کب بوجھ دل کا کم ہوا*جب کسی کی یاد آئی پھر وہی عالم ہوا"۔ کچھ شاعری کی مقبولیت کا نشہ، کچھ شراب کا نشہ اور کچھ پیشہ کی ذمہ داریاں، غرض جگر بیوی کو چھوڑ کر مہینوں گھر سے غائب رہتے اور کبھی آتے تو دوچار دن بعد پھر نکل جاتے۔ بیوی اپنے زیور بیچ بیچ کر گھر چلاتی۔ جب کبھی گھر آتے تو زیوربنوا بھی دیتے لیکن بعد میں پھر وہی چکّر چلتا۔ اس صورتحال نے اصغر کی پوزیشن بہت خراب کر دی تھی کیونکہ انھوں نے ہی یہ شادی کرائی تھی۔ اصغر کی بیوی کا اصرار تھا کہ اصغر نسیم سے شادی کر لیں لیکن وہ دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک ہی گھر میں شرعاً جمع نہیں کر سکتے تھے لہٰذا طے پایا کہ اصغر اپنی بیوی یعنی نسیم کی بڑی بہن کو طلاق دیں اور جگر نسیم کو۔ جگر اس کے لئے راضی ہو گئے اور اصغر نے نسیم سے شادی کر لی۔ اصغر کی موت کے بعد جگر نے دوبارہ نسیم سے، ان کی اس شرط پرنکاح کیا کہ وہ شراب چھوڑ دیں گے۔ دوسری بار جگر نے اپنی تمام سابقہ کوتاہیوں کی نہ صرف تلافی کر دی بلکہ نسیم کو زیوروں اور کپڑوں سے لاد دیا۔ دوسری بار نسیم سے شادی سے پہلے جگر کی تنہائی کا خیال کرتے ہوئے کچھ مخلص لوگوں نے ان پر شادی کے لئے دباؤ بھی ڈالا تھا اور بھوپال سے کچھ رشتے بھی آئے تھے لیکن جگر راضی نہیں ہوئے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ مین پوری کی ایک طوائف شیرازن ان سے نکاح کی آرزومند تھی۔

جگر بہت جذباتی، مخلص، صاف گو، محب وطن اور ہمدرد انسان تھے۔ کسی کی تکلیف ان سے نہیں دیکھی جاتی تھی وہ کسی سے مرعوب بھی نہیں ہوتے تھے۔ لکھنؤ کے وار فنڈ کے مشاعرہ میں، جس کی صدارت ایک انگریز گورنر کر رہا تھا، انہوں نے اپنی نظم "قحط بنگال" پڑھ کر سنسنی مچا دی تھی۔ کئی ریاستوں کے والی ان کو اپنے دربار سے وابستہ کرنا چاہتے تھے اور ان کی شرائط ماننے کو تیار تھے لیکن وہ ہمیشہ اس طرح کی پیشکش کو ٹال جاتے تھے۔ ان کو پاکستان کی شہریت اور عیش و آرام کی زندگی کی ضمانت دی گئی تو صاف کہہ دیا جہاں پیدا ہوا ہوں وہیں مروں گا۔ گوپی ناتھ امن سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے۔ جب وہ ریاستی وزیر بن گئے اور ایک محفل مشاعرہ میں ان کو شرکت کی دعوت دی تو وہ محض اس لئے شریک نہیں ہوئے کہ دعوت نامہ وزارتی لٹر ہیڈ پر بھیجا گیا تھا۔ پاکستان میں ایک شخص جو مرادآباد کا ہی تھا ان سے ملنے آیا اور ہندوستان کی برائی شروع کر دی۔ جگر کو غصہ آ گیا اور بولے، ’’نمک حرام تو بہت دیکھے آج وطن حرام بھی دیکھ لیا۔ ‘‘

جگر نے کبھی اپنی شراب نوشی پر فخر نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے اس دور کو دور جہالت کہتے رہے بہرحال انہوں نے شراب چھوڑنے کے بعد رمی کھیلنے کی عادت ڈال لی تھی جس میں کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ اس کے لئے وہ کہتے تھے، "کسی چیز میں غرق رہنا یعنی خودفراموشی میری فطرت ہے یا بن گئی ہے۔ خودفراموشی اور وقت گزاری کے لئے کچھ تو کرنا چاہئے۔ اور میری عادت ہے کہ جو کام بھی کرتا ہوں اس میں اعتدال کی حدوں پر نظر نہیں رہتی۔ " جگر آخری زمانہ میں بہت مذہبی ہو گئے تھے۔ 1953ء میں انہوں نے حج کیا۔ زندگی کی بے اعتدالیوں نے ان کے اعضائے رئیسہ کو تباہ کر دیا تھا۔ 1941 میں ان کو دل کا دورہ پڑا۔ ان کا وزن گھٹ کر صرف 100 پونڈ رہ گیا تھا۔ 1958 میں انہیں دل اور دماغ پر قابو نہیں رہ گیا تھا۔ لکھنؤٔ میں انہیں دو بار دل کا دورہ پڑا اور آکسیجن پر رکھے گئے۔ خواب آور دواؤں کے باوجود رات رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ 1960 میں ان کو اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا اور لوگوں کو اپنی چیزیں بطور یادگار دینے لگے تھے۔

جگر ایسے شاعر ہیں جن کی غزل قدیم تغزّل اور بیسویں صدی کے وسط و اواخر کی رنگین نگاری کا خوبصورت امتزاج ہے۔ جگر شاعری میں اخلاقیات کا درس نہیں دیتے لیکن ان کی شاعری کا اخلاقی معیار بہت بلند ہے۔ وہ تغزّل کے پردہ میں انسانی خامیوں پر ضربیں لگاتے گزر جاتے ہیں۔ جگر نے قدیم اور جدید تمام شعراء کی فکر سے استفادہ کیا۔ وہ بہت زیادہ آزاد نہ سہی لیکن مکتبی معائب سخن کی زیادہ پروا نہیں کرتےتھے۔ وہ فکر اور غنائیت کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر قربان نہیں کرتے۔ ان کا کلام بے ساختگی اور آمد سے معمور ہے سرمستی اور دلفگاری، تاثر اور سرشاری ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ان کی زندگی اور ان کی شاعری میں مکمل مطابقت ہے محاکات کے اعتبار سے اکثر مقامات ایسے ملیں گے کہ مصور کے تمام کمالات ان کی تصویر کشی کے سامنے ہیچ نظر آئیں گے۔ جگر حسن و عشق کو مساویانہ درجہ دیتے ہیں ان کے نزدیک حسن اور عشق دونوں ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ جگر نے تغزل کو معراج کمال تک پہنچا دیا اور یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ 

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے