aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نظیراکبر آبادی اردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے عہد کی عام شاعرانہ روش سے ہٹ کر اپنا جداگانہ راستہ منتخب کیا اور اس میں بے طرح کامیاب و کامران بھی رہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں عوامی رنگ اور سماج کے دبے کچلے اور نچلے طبقہ کے لوگوں کی زندگی کے مسائل کو تلاش کرکے پیش کیا ۔ انھوں نے اپنے کلام میں سماجی ، اخلاقی، اصلاحی اور تہذیبی مضامین و موضوعات کا احاطہ کیا ۔ انھوں نے اپنی شاعری کا خاص موضوع عوا م اور عوامی زندگی کو بنایا ۔ ان کی شاعری میں ہندی و ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں حددرجہ نمایاں ہیں ۔ نظیر کی شاعری میں ہندوستانیت کے اسی گہرے رچاو نے انھیں عوامی مقبولیت کا تاج پہنایا۔ ظیر فطری شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعر ی میں فطری عناصر کی جلوہ ریزیاں ہیں ۔ روز مرہ، مناظر قدرت ، عوامی زندگی ، سماج کے دبے کچلے لوگوں کے مسائل اور ان کا حل ، ہندوستانی موسم اور تہوار اور ہندوستانی معاشرے کے رسم و رواج کی گہری چھاپ ان کی شاعری میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہاں کے میلوں ، ٹھیلوں اور تہواروں کو اپنے مخصوص لب و لہجے اور طرزِ نگارش میں نظیر نے جس خوش اسلوبی اور رنگارنگی سے پیش کیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے، انھوں نے اپنی شاعری میں مناظر قدرت کی جو امیجری ابھاری ہے اور پیکریت کا جو انداز اپنایا ہے وہ قابل دید ہے، نظیر کی شاعری کا محور زندگی اور زندگی کے حادثات و واقعات ہیں، حقائق و معارف ، مسائل تصوف ، وحدۃ الوجود ، اخلاقیات ، پند و نصائح وغیرہ موضوعات بھی ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں ۔کلیاتِ نظیر میں غزلیں بھی ہیں ، بعض نظمیں بڑی طویل ہیں جن کے مطالعہ سے مثنوی کا گمان گذرتا ہے۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی کرامات، خیبر کی لڑائی، لیلیٰ مجنوں ، فاختہ وغیرہ نظمیں مثنوی کی خصوصیات سے ہم آہنگ طویل نظمیں ہیں۔ نظیر نے اپنی نظموں کے حوالے سے اخلاقی موضوعات کا احاطہ بھی کیا، مذہب، دنیا ، مکافاتِ عمل ، خوابِ غفلت وغیرہ نظمیں اخلاقیات پر عمدہ اور نفیس نظمیں ہیں۔
نظیر کا اصل نام ولی محمد تھا۔ والد محمد فاروق عظیم آباد کی سرکار میں ملازم تھے۔ نظیر کی ولادت دہلی میں ہوئی جہاں سے وہ اچھی خاصی عمر میں اکبرآباد(آگرہ) منتقل ہوئے، اسی لئے کچھ نقّاد ان کے دہلوی ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ تقریباً انیسویں صدی کے آخر تک تذکرہ نویسوں اور نقّادوں نے نظیر کی طرف سے ایسی بے اعتنائی برتی کہ ان کی زندگی کے حالات پر پردے پڑے رہے۔ آخر1896ء میں پروفیسر عبد الغفور شہباز نے "زندگانی بے نظیر" مرتب کی جسے نظیر کی زندگی کے حوالہ سے حرف آخر قرار دیا گیا ہے حالانکہ خود پروفیسر شہباز نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی تحقیق میں خیال آرائی کی آمیزش ہے۔ یقینی بات یہ ہے کہ اٹھارویں صدی میں دہلی انتشار اور بربادی سے عبارت تھی۔ مقامی اور اندرونی خلفشار کے علاوہ 1739 میں نادر شاہی سیلابِ بلا آیا پھر 1748، 1751 اور 1756ء میں احمد شاہ ابدالی نے پے در پے حملے کئے۔ ان حالات میں نظیر نےبھی بہت سے دوسروں کی طرح، دہلی چھوڑ کر اکبر آباد کی راہ لی، جہاں ان کے نانا نواب سلطان خاں قلعدار رہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 22-23 سال بتائی جاتی ہے۔ نظیر کے دہلی کے قیام کے متعلق کوئی تفصیل تذکروں یا خود ان کے کلام میں نہیں ملتی۔ نظیر نے کتنی تعلیم حاصل کی اور کہاں یہ بھی معلوم نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فارسی کی سبھی متداول کتابیں پڑھی تھیں اور فارسی کی اہم تصانیف ان کے زیر مطالعہ رہی تھیں۔ لیکن عربی نہ جاننے کا اعتراف نظیر نے خود کیا ہے۔ نظیر کئی زبانیں جانتے تھے لیکن ان کو زبان کی بجائے بولیاں کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ جن کا اثر ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ آگرہ میں نظیر کا پیشہ بچّوں کو پڑھانا تھا۔ اس زمانہ کے مکتبوں اور مدرسوں کی طرح ان کا بھی ایک مکتب تھا، جو شہر کے مختلف مقامات پر رہا۔ لیکن سب سے زیادہ شہرت اس مکتب کو ملی جہاں وہ دوسرے بچوں کے علاوہ آگرہ کے ایک تاجر لالہ بلاس رائے کے کئی بیٹوں کو فارسی پڑھاتے تھے۔ نظیر اس معلمی میں قناعت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ بھرت پور، حیدرآباد اور اودھ کے شاہی درباروں نے سفر خرچ بھیج کر ان کو بلانا چاہا لیکن انھوں نے آگرہ چھوڑ کر کہیں جانے سے انکار کر دیا۔ نظیر کے متعلق جس نے بھی کچھ لکھا ہے اس نے ان کے اخلاق و عادات، سادگی، حلم اور فروتنی کا تذکرہ بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ دربارداری اور وظیفہ خواری کے اس دور میں اس سے بچنا ایک مخصوص کردار کا پتہ دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے نظیر کو قریشی اور کچھ نے سید کہا ہے۔ ان کا مذہب امامیہ معلوم ہوتا ہے لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ وہ صوفی مشرب اور صلح کل انسان تھے اور کبھی کبھی زندگی کو وحدت الوجودی زاویہ سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جس خلوص اور جوش کے ساتھ ہندو مذہب کے بعض موضوعات پر جیسی نظمیں لکھی ہیں ویسی خود ہندو شاعر بھی نہیں لکھ سکے۔ پتہ نہیں چلتا کی انہوں نے اپنے دہلی کے قیام میں کس طرح کی شاعری کی یا کس کو استاد بنایا۔ ان کی بعض غزلوں میں میر و مرزا کے دور کا رنگ جھلکتا ہے۔ دہلی کے بعض شاعروں کی غزلوں کی تضمین ان کی ابتدائی شاعری کی یادگار ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا کہ ان کی دہلی کی شاعری کا کیا رنگ تھا۔ انہوں نے زیادہ تر مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں اور وہ ان ہی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپن اپنا کلام جمع نہیں کیا۔ ان کی وفات کے بعد بلاس رائے کے بیٹوں نے متفرق چیزیں جمع کر کے پہلی بار کلّیات نظیر اکبرآبادی کے نام سے شائع کیا جس کا سن اشاعت معلوم نہیں۔ فرانسیسی مستشرق گارسان دی تاسی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ نظیر کا پہلا دیوان 1820ء میں دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوا تھا۔ آگرہ کے مطبع الٰہی نے بہت سے اضافوں کے ساتھ اردو میں ان کا کلیات 1867 ء میں شائع کیا۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں کلیات نظیر نولکشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوتا رہا۔ نظیر نے طویل عمر پائی۔ عمر کے آخری حصہ میں فالج ہو گیا تھا۔ اسی حالت میں 1830ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے بہت سے شاگردوں میں میر مہدی ظاہر، قطب الدین باطن، لالہ بد سین صافی، شیخ نبی بخش عاشق، منشی حسن علی محو کے نام ملتے ہیں۔
تذکرہ نگاروں اور 19ویں صدی کے اکثر نقّادوں نے نظیر کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی شاعری میں بازاریت، ابتذال، فنی اغلاط اور عیوب کا ذکر کیا۔ شیفتہ اسی لئے ان کو شعراء کی صف میں جگہ نہیں دینا چاہتے۔ آزاد، حالی اور شبلی نے ان کے شاعرانہ مرتبہ پر کوئی واضح رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ اصل سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ نظیر نے اپنے دور کے معیارِ شاعری اور کمالِ فن کے نازک اور لطیف پہلووں کوزندگی کے عام تجربات کے سادہ اور پر خلوص بیان پر قربان کر دیا۔ درباری شاعری کی فضا سے دور رہ کر، موضوعات کے انتخاب اور ان کے اظہار میں ایک مخصوص طبقہ کے ذوق شعری کو ملحوظ رکھنے کے بجائے انہوں نے عام لوگوں کے فہم اور ذوق پر نگاہ رکھی یہاں تک کہ زندگی اور موت، منازلِ حیات اور مناظر قدرت موسم اور تہوار، امارت اور افلاس، عشق اور مذہب، تفریحات اور مشاغلِ زندگی، خدا شناسی اور صنم آشنائی، ظرافت اور عبرت غرض کہ جس مضمون پر نگاہ ڈالی، وہاں زبان، اندازِ بیان اور تشبیہات اور استعارات کے لحاظ سے پڑھنے والوں کے ایک بڑے دائرہ کو نظر میں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے سیکڑوں پہلووں کے علم، جزئیات سے غیر معمولی واقفیت، وسیع انسانی ہمدردی اور پرخلوص اظہار مطالب کو اہمیت دی جائے تو نظیر کے بلند پایہ شاعر ہونے میں کوئی شک نہیں۔ انہوں نے فن اور اس کےاظہار کے معروف تصورات سے ہٹ کر اپنی نئی راہ نکالی۔ نظیر کی نگاہ میں گہرائی اور فکر میں وزن کی جو کمی نظر آتی ہے اس کی تلافی ان کی وسعتِ نظر، خلوص، تنوع، حقیقت پسندی، سادگی اور عوامی نقطۂ نظر سے ہو جاتی ہے اور یہی باتیں ان کو اردو کا ایک منفرد شاعر بناتی ہیں۔
تخلص نظیر اور شاعر بے نظیر! بے نظیر اس لئے کہ ان جیسا شاعر تو دور، ان کے زمرہ کا شاعر بھی نہ ان سے پہلے کوئی تھا نہ ان کے بعد کوئی پیدا ہوا۔ نظیر اکبر آبادی اردو شاعری کی منفرد آواز ہیں جن کی شاعری اس قدر عجیب اور حیران کن تھی کہ ان کے زمانہ کے شعری شعور نے ان کو شاعر تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ نظیر سے پہلے اردو شاعری غزل کے گرد گھومتی تھی۔ شعراء اپنی غزل گوئی پر ہی فخر کرتے تھے اور شاہی درباروں تک رسائی کے لئے قصیدوں کا سہارا لیتے تھے یا پھر رباعیاں اور مثنویاں کہہ کر شعر کے فن میں اپنی استادی ثابت کرتے تھے۔ ایسے میں ایک ایسا شاعر جو بنیادی طور پر نظم کا شاعر تھا۔ ان کے لئے غیر تھا۔ دوسری طرف نظیر نہ تو شاعروں میں اپنی کوئی جگہ بنانے کے خواہشمند تھے، نہ ان کو نام و نمود، شہرت یا جاہ و منصب سے کوئی غرض تھی، وہ تو خالص شاعر تھے۔ جہاں ان کو کوئی چیز یا بات دلچسپ اور قابل توجہ نظر آئی، اس کا حسن شعر بن کر ان کی زبان پر جاری ہو گیا۔ نظیر کی شاعری میں جو قلندرانہ بانکپن ہےوہ اپنی نظیر آپ ہے۔ موضوع ہو، زبان ہو یا لہجہ نظیر کا کلام ہر اعتبار سے بے نظیر ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets