aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کلیات سعدی میں شیخ سعدی ؒ کا سارا کلام موجود ہے ،چاہے وہ نظم ہو یا نثر یا پھر عربی اور فارسی کلام ، اس کلیات کو شیخ سعدی کی وفات کے 42 سال بعد جمع کیا گیا تھا جس کی ترتیب کچھ اس طرح ہے، کہ سب سے پہلے چند مختصر رسالے ہیں جن میں سلوک اور تصوف کے مضامین اور مشائخ کی حکایتیں اور حکام کے لئے نصیحتیں ہیں ، دوسرے نمبر پر گلستاں، تیسرے نمبر پر بوستاں، چوتھے پر پند نامہ، جس کو زیادہ تر کریما کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،پانچویں فارسی قصائد ہیں جن قصائد میں مرثیے، ملمعات، مثلثات اور ترجیعات شامل ہیں ، چھٹے نمبر پر عربی قصائد ، ساتویں نمبر پر غزلیات کا پہلا دیوان ، آٹھویں میں دوسرا دیوان ، نویں نمبر پر تیسراں دیوان اور دسویں نمبر پر وہ غزلیات پیش کی گئیں ہیں جن کو غزلیات قدیم کے نام سے جانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے یہ وہ غزلیات ہیں جو شیخ سعدیؒ نے عنفوان شباب میں کہی تھیں۔ گیارہویں نمبر پر شیخ سعدی کے قطعات ، مثنویات، رباعیات اور مفردات کو پیش کیا گیا ہے۔
شیخ سعدی کا نام شرف الدین اور لقب مصلح ہے ۔چوں کہ ان کے والد عبداللہ شیرازی اتابک سعد زنگی کے ملازم تھے اور انہیں کے دور میں آپ نے شاعری شروع کی اسی نسبت سے آپ کا تخلص سعدی تھا، شیخ سعدی کی پیدائش 1210ء کو ملک ایران کے شہر شیراز میں ہوئی، آپ کی تعلیم بغداد کے مشہور مدرسہ نظامیہ میں ہوئی، آپ نے تصوف کے مراحل شیخ الشیوخ عمر بن محمد شہاب الدین سہروردی کی نگرانی میں طے کئے، شیخ سعدی کا فقہی مسلک شافعی تھا۔ شیخ سعدی کو سیاحت کا بے انتہا شوق تھا۔ حصول علم کے لئے انہوں نے سیاحت کی ٹھانی اور یہ سلسلہ تقریباً تیس برس تک چلتا رہا۔ اس دوران انہوں نے عراق، فلسطین، طرابلس اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا اور کئی بار حج کئے، وہ ایک بہترین ایرانی شاعر، مصنف، ادیب، فلسفی اور صوفی بزرگ تھے۔ عربی و فارسی دونوں زبانوں پر مہارت حاصل تھی، جہاں جہاں سے گزرے ان مقامات کو نظم کے پیرائے میں ڈھا ل دیا، اس طرح دور دراز کے علاقوں اور ملکوں کی سیر وسیاحت کرتے ہوئے اورانسانوں کو انسانیت کا درس دیتے ہوئے ابوبکر سعد کی حکومت میں شیراز لوٹے، اس کے بعد برسوں ریاضت اور مجاہدہ کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے عمر بھر کے تجربات اور مشاہدات کو گلستاں اور بوستاں کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا، ان کی یہ دونوں کتابیں شہرہ آفاق حیثیت کی حامل ہیں، خاص طور سے گلستاں کے اشعار کے پھول آج بھی تر و تازہ ہیں، بوستاں ان کی نظموں کے مجموعے کا نام ہے، گلستاں کی نثری عبارتوں کو بہترین اشعار سے مزین کیا گیا ہے۔ شیخ سعدی کی حکایتیں نصیحتوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان کا انتقال 1292ء میں شیراز ہی میں ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets