aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شکیل بدایونی،اردو غزل کے وہ مقبول شاعر ہیں، جنہیں "شاعر شباب"کے لقب سے نوازا گیا۔وہ ایک ایسے ممتاز شاعر تھے جنھوں نے ایک ہی وقت مین غزل کو نکھارا اور نغمات کی دنیا میں نیا رنگ پیش کیا۔ جگر مرادآبادی اور فراق گورکھ پوری کے بعد واحد شاعر تھے جنھوں نے اپنے فن کے لیے غزل کے میدان کو اپنایا ،اور اسے زندگی کے بدلتے ہوئے رجحانات اور جدید تصورات سے ہم کنار کیا۔پورے ہندوستان میں ان کی غزلوں کی دھوم تھی، بڑے بڑے مشاعروں میں شکیل بدایونی کا نام ہونا ضرور سمجھا جاتاتھا، اور وہی مشاعرہ کامیاب سمجھا جاتا تھا جس میں شکیل بدایونی کی شرکت ہوتی تھی۔یہ حقیقت ہے کہ شکیل بدایونی کا اردو ادب پر بہت بڑا احسان ہے، انھوں نے اپنے نغمات کے سہارے اردو ادب کو ہندوستان کے کونے کونے پہنچایا، انھوں نے اپنے دور کی مکمل ترجمانی کی ۔اپنی غزلیات میں منظومات میں اور جب موقع ملا تو نغمات بھی لکھے اور اپنے نغمات میں خلوص و محبت کا پیغام بھی دیا اور سماج کو سدھارنے کا طریقہ بھی بتایا ۔زیر نظر کتاب شکیل بدایونی کا کیات ہے ،اس کلیات میں ان کے شعری مجموعے "رعنائیاں "،"صنم و حرم"،"شبستان"اور "رنگینیاں"شامل ہیں۔ کلیات کے شروع میں رئیس المتغزلین جگر مرادآبادی کا لکھا ہوا ایک جامع مقدمہ ہے جس سے شکیل کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی 3 اگست 1916ء کو محمّد جمیل احمد قادری سوختہ کے گھر جعمرات کو پیدا ہویے تھے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد جمیل احمد قادری ممبئی کی ایک مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے۔ لغت کے مشہور شاعر حضرت ضیاء القادری نے ان کا نام شکیل احمد رکھا تھا اور تاریخی نام غفار احمد رکھا تھا۔ شکیل بدایونی کی ابتدائی تعلیم مکتب اور مدرسے بدایوں سے شروع ہوئی، اس کے بعد 1936ء میں ہائی اسکول پاس کیا۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن سے ہی دامن گیر ہو گیا تھا۔ 1935ء میں ایک شاندار آل انڈیا مشاعرہ بدایوں میں منقعد ہوا۔ اس میں شکیل بدایونی نے شرکت کر خوب داد حاصل کی۔ اس دن سے اہل بدایوں ان کی شیری کو پہچاننے لگے۔
1937ء میں اپنے دوست یوسف حسین قادری کے پاس مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے پہنچ گئے۔ علی گڑھ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ شاعری میں بےپناہ دلچسپی لینے لگے۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات حضرت جگر مراد آبادی سے ہوئی اور اس ملاقات کے بعد ان کی شاعری میں انقلاب آ گیا۔ حضرت جگر نے ہی انہیں فلمی دنیا میں جانے کا مشورہ دیا تھا۔ 1942ء میں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت کرنے لگے۔ شکیل دہلی میں تقریباً 1946ء تک مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے جہاں ان کی ملاقات اے آر کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصّہ لیا اور ان کی شہرت پورے ہندوستان میں ہو گئ۔ اے آر کاردار کے اصرار پر شکیل نے مستقل طور پر بمبئی کو ہی اپنی رہائش گاہ بنا لیا اور اپنی ملازمت کو چھوڈ دیا۔ ان کی پہلی فلم "درد" کے نغمات نے شہرت پھیلائ اور دیکھتے دیکھتے وہ سب کے پسندیدہ نغمہ نگار بن گئے۔
شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو ، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے۔ شکیل بدایونی نے نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر دو سو سے زائد نغمے لکھے۔ مدر انڈیا، مغل اعظم، میرے محبوب، بابل جیسی فلموں کے خالق شکیل بدایونی لگاتار 3 سال "فلم فیر ایوارڈ" حاصل کرنے والے واحد شاعر تھے۔ شکیل کو شاعری کے علاوہ بیڈمنٹن کھیلنا بہت پسند تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جب بھی پکنک پر جاتے تو وہ بیڈمنٹن اور پتنگ بازی بھی کرتے تھے۔ نوشاد، محمد رفیع اور کبھی کبھار جانی واکر بھی ان کے ساتھ پتنگ بازی کے مقابلے میں حصہ لیا کرتے تھے۔
فلمی نغموں کے علاوہ ان کی شاعری کے پانچ مجموعے "غم فردوس"، "صنم و حرم"، "رعنائیاں"، "رنگینیاں"، "شبستاں" کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی، تاہم 1969ء میں لکھی گئی آپ بیتی 2014 میں شائع ہوئی تھی۔ شکیل بدایونی کا 20 اپریل 1970ء کو ممبئی میں انتقال ہو گیا تھا۔ ممبئی میں ہی وہ آسودہ خاک ہویے تھے مگر قبرستان کی انتظامیہ نے 2010ء تک ان کی قبر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets