aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب کے جانے مانے شاعر ظفر صہبائ کا شمار بھوپال سے تعلق رکھنے والے اہم شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش 14 جون 1946ء کو بھوپال میں ہوئ۔ ان کا اصل نام محمد یونس خان اور ان کے والد کا نام محمد یوسف تھا۔ ظفر صہبائ نے علم و ادب کے گہوراہ بھوپال میں آنکھ کھولی جہاں اردو کی روایتی شاعری اور خصوصاً کلاسیکی غزل ذوق و شوق سے پروان چڑھ رہی تھی اور جگر مرادآبادی کو یہاں کی محفلیں سر آنکھوں پر بٹھا رہی تھیں۔
اس وقت کے اساتذہ میں جن شعراء کا شہر میں سکّہ چل رہا تھا، ان میں شعری بھوپالی، صہبا قریشی، محمد علی تاج وغیرہ کے نام اہم ہیں۔
ظفر صہبائ نے 1960ء میں میدان سخن میں اس وقت قدم رکھا جب ترقی پسند تحریک کا سورج نصف النہار کو پہنچ کر رو بہ زوال تھا۔ تب ان کے سامنے ایک جانب بھوپال کی کلاسیکی اور ترقی پسند شاعری کی شاندار روایت موجود تھی اور دوسری جانب جدیدیت کا رجحان پوری شد و مد کے ساتھ نئے فنکاروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔ انہوں نے صہبا قریشی جیسے استاد فن سے تربیت کا فیض حاصل کیا۔
ان کے شعری مجموعوں میں "دھوپ کے پھول (1977)"، چاک روشنی (1988)" اور "لفظوں کے پرندے (1998)" شائع ہو چکے ہیں۔ انہیں "دھوپ کے پھول" کے لئے غالب ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ ہندوستان اور بیرون ملک کے مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ وہ "بھوپال ٹائمز" نیوز ایجینسی میں بھی کام کر چکے ہیں۔
ظفر صہبائ نے ایک طویل عرصہ بے روزگاری، تنہائ، تکالیف، مجبوریوں اور محرومیوں کا گزارا ہے۔ اس زمانے میں انہوں نے فلمی گیتوں کی طرز پر شعر کہنے کی مشق شروع کی۔ یہ مسلسل مشق بعد میں سنجیدہ شاعری کا سبب بھی بنی، ساتھ ہی ظفر نے اپنے مطالعہ کے شوق کو جاری رکھا- نتیجہ یہ ہوا کہ کم عمری میں ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں نے عوام و خواص کو متوجہ کرنا شروع کر دیا اور آج حال یہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں اور ہم عمروں میں ایک ممتاز مقام پر فائز ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets