aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
منشی محمد الدین فوقؔ کشمیری الاصل تھے۔ فروری 1877 میں پیدا ہوئے۔ 1896 میں مڈل کا امتحان دینے کے بعد جو اس وقت یونیورسٹی کا امتحان تھا، سیالکوٹ میں جاکر پٹوار کا کام سیکھنا شروع کردیا۔ پھر چند دن جموں میں رہ کر پیسہ اخبار کے دفتر میں ملازمت اختیار کر لی 1901 میں اپنا اخبار ’’پنجۂ فولاد‘‘ جاری کیا جو 1906 میں بند ہوگیا۔ اس کے بعد ماہنامہ کشمیری میگزین جاری کیا جو 1913 میں ہفتہ وار اختار کشمیری ب گیا اور 1934 تک کشمیر اور اہل کشمیر کی خدمت کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی 1914 میں رسالہ طریقت جاری کیا جو چار سال تک جاری رہا۔ 1918 میں رسالۂ نظام جاری کیا مگر وہ جلد بند ہوگیا۔
منشی محمد الدین فوقؔ بہ یک وقت شاعر بھی تھے اور ادیب بھی۔ مورخ بھی تھے اور صحافی بھی۔ ان چاروں خصوصیتوں میں انہوں نے نام پیدا کیا ہے کہ چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد سو کے قریب ہے۔ کشمیر کا یہ سب سے بڑا شاعر اور مورخ 14 ستمبر 1945 کو ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہوگیا
فوقؔ صاحب نے ایک ثقہ انسان کی طرح زندگی بسر کی۔ ساری عمر اخبار نویسی کی یا تاریخ پر بیش بہا کتابیں لکھیں۔ ایک مورخ میں جس قسم کی متانت ہونی چاہئے، وہ آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن متین اور سنجیدہ ہونے کے باوجود جب کبھی بے تکلف دوستوں کی صحبت میں کھلتے تو اس وقت آپ کی شگفتہ مزاجی اور بزلہ سنجی دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ اخبار نویس کی حیثیت سے بھی آپ کو قارئین کی دلبستگی کا خیال رکھا پڑتا تھا۔ چنانچہ شروع شروع میں لطائف و ظرائف کے نام سے آپ کو قارئین کی دلبستگی کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ چنانچہ شروع شروع میں لطائف و ظرائف کے نام سے آپ کے اخبار میں ایک مستقل کالم ہوتا تھا جس پر آپ کا یہ شعر درج ہوا کرتا تھا
رونی صورت ہوکوئی لاکھ ہنسا دیں آپ کو
دل پھڑک جائے لطیفہ وہ سنا دیں اس کو
آپ کی تالیفات میں دو کتابیں ’’ڈاکٹروں اور مریضوں کے لطیفے‘‘ اور ’’استادوں شاگردوں کے لطیفے‘‘ بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ لطیفہ گوئی میں آپ کو کمال حاصل تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets